موجودہ پاکستان میں زندہ رہنے کے طریقے؟

فیصل شہزاد چغتائی
By -
0



موجودہ پاکستان میں زندہ رہنے کے طریقے؟

جس سمت بھی دیکھیں ہر فرد پریشان نظر آتا ہے کوئی پیٹرول کا تذکرہ کرتا ہے کوئی بجلی کے بلوں کا رونا روتا ہے کوئی آٹا چینی ، پتی اور گھی کی بات کرتا ہے۔ یہ تو ہر دور میں معاملات رہے ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک پیسہ مخصوص یا سیلکٹڈ لوگوں تک ہی محدود رہے گا اور وہ ریسورسز پر قابض رہیں گے۔ خیر چاہے سیاست دان ہوں ، چاہے تاجر مافیا کسی سے بھی داد رسی کی کوئی امید نہیں بچتی ۔ عوام کل بھی اپنے دم پر کچھ نہ کچھ کرکے زندہ تھے آور آج بھی رستے تلاش کر رہی ہے کہ کیسے کورونا سے نکلنے کے بعد کمر سیدھی کی جائے کہ اتنے میں جمہوریت کے نام پر مذاق بنا دیا گیا اور یکے بعد دیگرے ہر چیز کی قیمت آسمان سے لگا دی گئی تو ایسے حالا ت میں لوگوں کی نفسیاتی حد تجاوز کر جائے گی اور وہ مستقبل میں سڑکوں پر ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی میں بھی مصرف ملیں گے۔

ہر حکومت اپنی عوام کے لیے سہولتوں کے در کھولتی ہے ادھر تو جو سہولتیں عمران خان نے عوام کے لیے دیں وہ یکے بعد ختم کر دی گئیں اور ١٢ ھزار کی امدادی رقم کو بھی نہ بخشا ، اس رقم پر بھی ہاتھ صاف کر کے دو ھزار بچا دیئے مستحق گھرانوں کی مدد کے لیے اوپر سے سونے پر سہاگہ یہ کیا کہ پہلے مسیج کرو شناختی کارڈ نمبر تب دو ھزار ملیں گے اب ایک میسج کرنے کے بعد سات سے آٹھ روپے کٹ جاتے ہیں اگر آپ کے موبائل میں دس روپے نہ ہوں تو آپ کبھی بھی 786 پر میسج نہیں کر سکتے۔ کچھ تو پچاس کا لوڈ کر کے دو یا تین بار شناختی کارڑ نمبر بھیج رہے ہیں۔

تو اس طرح لگ بھگ اگر بیس کروڑ عوام سے صرف دس کروڑ لوگ نکال بھی دیں تو باقی دس کروڑ عوام اگر پانچ روپے کے حساب سے بھی دیں تو پانچ ارب روپے کی رقم بنتی ہے جو غریبوں کے خون سے نچوڑی جا رہی ہے موبائل سے ، جس طرح ماضی پی ٹی اے کی طرف سے دوھرے ٹیکس موبائل پر لگائے گئے وہ بھی ایک گھناونا مذاق تھا ، ایک موبائل پر دو مرتبہ اور کسی موبائل پر تین بار بھی ٹیکس وصول کئے گے، استعمال کی جانے والی سم پر علیحدہ سے عوام علیحدہ سے ٹیکس ادا کرتی رہی۔

پاکستان میں رواج چل چکا ہے کہ ھر فرد سے دگنے ٹیکس وصول کیے جائے اور نئے طریقے متعارف کروائے جائیں جہاں جہاں سے عوام پیسا دے سکے اور ایسے راستے چمچے کڑچے جو جو اٹھائی گیر حکومتوں میں شامل ہوتے ہیں وہ انہیں دیتے ہیں کہ جی موبائل پر تین منٹ بات کرنے پر ٹیکس ڈبل لگا دیں ، ایکسائز ڈیوٹی لگا دیں ۔ بینک ٹرانسیکشن پر تیکس لگا دیں ۔ ہر چیز جو خریدے اس پر ٹیکس لگا دیں جو کھاتا ہے اس پر ٹیکس لگا دیں بجلی ، گیس ، غرض یہ کہ جینے کی جو سہولت پاکستان میں بچتی ہے سب پر ٹیکس لگا دیں۔ اب یہ سب ہوگا تو عام انسان بھی دیوار میں ٹکر مارے گا۔ عوام کو صرف نفسیاتی بنانے کے فارمولے تیار کیے جار رہے ہیں اور ایسی ایسی اسکمیں متعارف کروائی جا رہی ہیں کہ لوگ گھروں سے باھر نکلنے کے قابل ہی نہ رہیں۔ کیونکہ عوام ایک بار سڑکوں پر آنا شروع ہو گئی تو شعور آ جائے گا۔ اس وجہ سے دوبارہ ماضی کے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا



آج پھر پچاس سال پہلے کے پاکستان میں ہم چلے گئے ہیں بجلی ، گیس ، پیٹرول مہنگائی کا رونا ہر دور میں موجودہ سیاست میں بیٹھے عناصر نے رویا ہے اور عوام کو رو رو کر لوٹا ہے اور آج بھی کچھ منفرد نہیں کر رہے لوٹنے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ اب ان حالات میں احتیاطی تدابیر اور گزر بسر کیسے کیا جائے تو اس میں چند چیزیں جو ایسی حالات میں کام آ سکتی ہیں نیچے درج ذیل ہیں۔


١۔ دکان پر قیمت پر چیزیں لینے سے بہتر ہے اپنے علاقے میں ھول سیل کی دکانیں دیکھیں جہاں ایک سو روپے والی چیز آپ کو 97 یا95 روپے کی ملے گی۔ ہم روزمرہ کے استعمال کی چیزیں بازار یا دکان سے خرید کر لیتے ہیں جو پرنٹ کئی گئی قیمت پر فروخت ہو رہی ہوتی ہیں ایک تو پہلے آپ ہر پراڈکٹ پر ٹیکس دے رہے ہیں اوپر سے پوری قیمت پر خریداری۔

آج ہی اپنے علاقے میں ھول سیل مارکیٹ تلاش کریں اور وہاں سے گھر کا سامان مارکیٹ کی قیمت سے اور مارٹ کی قیمتوں سے کم پر لیں۔


٢۔ آئل گھی ، تیل یہ بھی آپ ھول سیل مارکیٹ سے اٹھائیں ھر پراڈکٹ پر آپ دس سے پندرہ روپے سیو کر سکتے ہیں۔ جو کسی اور جگہ استعمال میں آپ کو مدد دے سکتے ہیں۔ علاوہ اس کے کھلا تیل ملتا ہے جو سستے دام پر مل سکتا ہے تیل سے بہتر ہے جب تیل کا ریٹ اتنا زیادہ وہ چکا ہے تو سرسوں کا تیل یا دیگر متبادل تیل استعمال کیا جائے جس کی پرڈکشن پاکستان میں۔


٣۔ بلاوجہ گھر سے نہ نکلیں، زیادہ سے زیادہ سو کر وقت گزاریں اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ جلد بھوک نہیں لگے گی دو وقت کی بجائے ایک وقت کی روٹی کھا کر آپ گزر بسر کر سکتے ہیں۔

٤۔ چاول ھول سیل مارکیٹ سے اکٹھا اٹھا لیں ۔ دالیں بھی کلو کلو اٹھا لیں یہ وہ سامان ہے کہ آپ ان سے گزر بسر کر سکتے ہیں آپ فاقوں سے کسی حد تک بچ سکتے ہیں۔


٥۔ پیٹرول کی قیمت جیسے جیسے بڑھتی جا رہی ہے یا میڈیا کے ذریعے اعلان کر دیا جاتا ہے تو ہم بالٹیاں لے کر پیٹرول پمپ کی طرف چل پڑتے ہیں ایسا کرنے سے گریز کریں اگر آپ کار چلاتے ہیں تو کچھ عرصے کے لیے کار کو گیرج میں کھڑی کر دیں ۔ موٹر سائیکل چلائیں ۔ موٹر سائیکل میں پیٹرول گیج وال کو چابی والا لاک لگوائیں تاکہ پیٹرول چوری ہونے کے خطرات سے بچا جا سکے۔ دوسرا موٹر سائیکل پیٹرول ٹینک سے جو پائپ کاربیٹر میں جا رہا ہے اس پر ڈرپ کنٹرول کرنے کے لیے لگا ہوتا ہے اسے اتار کر پیٹرول کی پائپ لائن پر لگا کر ڈراپ کی صورت میں کاربیٹر کو پیٹرول دیں تو پیٹرول ایک لیٹر میں ستر سے اسی کلو میٹر تک مسافت طے کر سکتے ہیں ۔


٦۔ گھر میں فالتو لائٹس ، پنکھے بند رکھیں جہاں ضرورت ہو اس جگہ ضرورت کے مطابق بجلی استعمال کریں، یا متبادل یہ کہ ایک سولر پلیٹ لے کر ڈی سی چارجر جو کہ پندرہ ھزار تک کا خرچ ہے لے کر تمام پنکھے تبدیل کر دیں اور لائٹ بھی ڈی سی لگوا لیں ۔ رات کے لیے پنکھے چلانے اور لائٹس چلانے کا بیک اپ ڈرائی بیٹری مارکیٹ سے پتہ کریں جو سات سے آٹھ ھزار روپے تک مل جائے گی اس پر دن میں بیک اپ سٹور کریں۔ اور رات میں استعمال کریں۔


٧۔ گرمی سے بچنے کے لیے رات کو نہا کر سوئیں اور سردی میں لکڑیاں اکٹھی کر کے سب ایک جگہ بیٹھ کر آگ جلا کر ہاتھ سیکھیں ۔ اے سی یا ھیٹر چلانے سے اجتناب کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچت ہو سکے۔


٨ ۔ کمائی کے آسان طریقے گھر بیٹھ کر تلاش کریں کہ کونسے ایسے طریقے ہیں جن سے آمدن کا سلسلہ بڑھایا جا سکتا ہے تاکہ بچوں کو سہولتیں مل سکیں ، اس صورت میں یوٹیوب کا سہارا لیں اور آسان طریقے تلاش کریں جن سے کچھ آمدن کا طریقہ بن سکے۔


٩۔ ناشتے میں بچوں کے لیے پاپے لے کر رکھ لیں جو ابھی بھی سستے ہیں ایک دو کلو پاپے لے کر چائے کے ساتھ کھائے جا سکتے ہیں ۔ اور چائے کے لیے چینی یوٹیلیٹی اسٹور سے چار کلو لیں باقی سامان یوٹیلیٹی اسٹور سے نہیں لے سکتے کیونکہ وہ مارکیٹ کے ریٹ پر ملے گی اس لیے بہتر ہے مارکیٹ کا جتنا بھی سامان ہے وہ ھول سیل مارکیٹ سے لیں۔




١٠۔ رات کو سڑکوں پر نکلنے سے پہلے ضروری ڈاکومنٹس مثلا شناختی کارڈ ہمراہ رکھیں اور ممکن ہو تو جیب میں گھر کا پتہ اور ایمرجنسی رابطہ کے نمبر ضرور رکھیں کبھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ رات کے وقت موبائل اگر آپ کے پاس ٹچ موبائل ہے تو وہ گھر پر چھوڑ کر جائیں کیونکہ آپ کی طرح بہت سے لوگ مہنگائی سے متاثر ہیں اور ان کے لیے لوٹ مار چوری ڈکیتی جینے کے لیے ھلال ہو چکا ہے۔ تو احتیاط برحق ہے۔


١١۔ اور آخری بات خود کو کسی طرح اگلے الیکشن تک زندہ رکھیں تاکے منافقوں لٹیروں سے جان چھوٹ سے اور آزادی کا سانس لے سکیں اگر آپ صاحب استطاعت ہیں تو کسی دوسرے ملک میں ھجرت کر جائیں جن میں ترکی ، دبئی ، اور دیگر ممالک میں پرتگال وغیرہ بہتر ہیں جہاں آپ عزت کی روٹی کما کر بچوں کو پال سکتے ہیں۔


امید ہے تمام دوست ان احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے زیادہ سے زیادہ جینے کی کوشش کریں گے اور الیکشن تک خود کو زندہ رکھیں گے کیونکہ حالات بہت کشیدہ ہو چکے ہیں اور مزید ہونے جا رہے ہیں ایسے صورت میں جو ضروریات اشیاء ہیں جن سے زندہ رہا جا سکتا ہے صرف اس پر گزر بسر کریں اور شکر اللہ کا ادا کریں اور دعا کرتے رہیں کہ اللہ پاک ان فرعون صفت انسانوں سے جان چھڑوا دے۔

آمین۔

Tags:

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)