کونسی ایسی اپوزیشن کی اجازت کے متلاشی ہیں ؟
Writen By: Faisal S. Chughtai
مسلم لیگ ن ، نااہل لیڈر کی وجہ سے تقریبا" ختم ہو گئے اس سے کچھ لوگ ٹوٹ کر پی ٹی آئی اور پی پی پی میں چلے گئے پچے بچ جانے والے سیاسی جماعتوں میں تو پہلے ہی اتنا دم نہیں تھا کہ وہ نیشنل لیول تک الیکشن لڑ سکیں تو مستقبل میں کیسے وہ اپنا وجود ثابت کریں گے، پی پی واحد سیاسی جماعت ہے جو مضبوط وجود رکھتی ہے اس کے ووٹر پکے ہیں وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے سردی ہو گرمی ہو ووٹ بھٹو کا ، جوں جوں صوبے کی بات شروع ہوتی ہے تو بہت سے لوگوں کے پیٹ میں سخت مروڑ اٹھتا ہے اور وہ اس لیول تک بھونکنا شروع کر دیتے ہیں جیسے وہ صوبہ پنجاب کے نہیں کسی دوسرے ملک کے رہائشی ہوں اور پنجاب یعنی ان کی بادشاہت ٹوٹ رہی ہو ۔ تکلیف تو ہوگی ظاہر سی بات ہے جب فنڈ کم ملیں گے فنڈ حق دار ایسے علاقوں پر خرچ ہونگے جو حقیقی معنوں میں حق رکھتے ہیں ترقی کی طرف آنے کا تو ایسی باتیں تو سوشل میڈیا ہو الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا ہو وائرل ہونگی۔
یہ اسی نسل کے لوگ ہیں جو اپنی بہنوں کا حق تک کھا جاتے ہیں اپنے بھائیوں کو جائیداد کے لیے مار دیتے ہیں۔ وہ سرائیکی خطے پر اپنی اجارہ داری کیسے ترک کر سکتے ہیں؟ وزیر اعظم کا فیصلہ بہاول پور کو صوبائی حیثیت دینے کی بہجائے اسے سیکریٹریٹ بنا دینا بیشک اچھا تھا ، مگر بہاول پور ریاست جغرافیائی اعتبار سے تو بحالی صوبہ کا حق رکھتی ہے مگر اس بار پھر اس ریاست کے لوگوں کو قربانی دینی پڑتی ہے تو دیں گے تاکہ صوبہ ایک بن جائے جس میں تمام جغرافیائی اعتبار سے جہاں سرائیکی خاندان اکثریت سے آباد ہیں انہیں صوبہ کی حیثیت میں لے کر آیا جائے۔ مسلم لیگ ن بھی صوبہ دینا چاہتی تھی ، مسلم لیگ ن کو وسیب کے لوگوں نے صرف اس لیے مسترد کیا کیونکہ وہ اپنی شناخت اس سرائیکی خطے پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔
اس سے قبل پی پی نے جدوجہد کی سرائیکی خطے پر جغرافیائی حساب سے اتنے بڑے خطے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک کی بجائے دو صوبے متعارف کروانے کی قرار داد پیش کی جس میں ایک صوبہ ریاست بہاول پور پر مشتمل علاقوں پر تھا اور دوسرا ملتان سے ملحقہ شہروں پر، مگر اس کی مدت ختم ہونے پر وہ معاملہ جوں کا توں رہ گیا اس وقت بھی مخالفت کرنے والے ن لیگی تھے، ن لیگی بھارت میں بی جے پی جماعت جیسی ہی ہے وہاں مسلمانوں کیخلاف کارروائی کرنے والوں کو شیری دی جاتی ہے اور یہاں مسلم لیگ ن پنجابیوں کو سرائیکیوں کیخلاف کارروائی کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھتی۔ یہی عادت ہے کہ اب تک یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ اب جو پتہ چلا ہے اس میں خان صاحب کو بھی نظرثانی کرنی ہوگی ، اس خطے کے لوگوں میں اب سیاسی شعور بیدار ہو چکا ہے اب ان سے کسی کی پیروکاری نہیں ہوگی اب وہ غلامی کے دور گزر گئے اب زنجیروں کو زیور نہیں نفرت قید کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ میں نے گزشتہ دنوں میں اپنے کالم میں لکھا تھا کہ یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ ہے ، اگر موجودہ حکومت یہ فیصلہ کر لیتی ہے تو اس کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا اگر نہیں کرتی تو شاید ہی ٢٣ اضلاع پر مشتمل اس خطے سے اس کو اتنی بڑی کامیابی مستقبل میں مل سکے، اس وقت اس حکومت میں منتخب ہونیوالے تقریبا سرائیکی ہی ہیں اور میدان صاف ہے اپوزیشن نہ ہونے کے برابر ہے اور وجہ بیماری کے بہانے پاکستان سے بھاگ جانا اور اپنا سیاسی مستقبل تباہ کر دینا ہے اس وقت آصف علی زرداری نے میری نظر میں سیاسی طور پر خود کو زندہ رکھا ہے واحد یہی پارٹی ہے جو تمام کیس کو قانونی طور پر نمٹا رہی ہے اور پاکستان میں رہ کر علاج بھی چل رھا ہے اور بھاگے بھی نہیں ، یہ ایک اچھی سیاست دان کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ میدان چھوڑ کر نہیں بھاگتا، نواز نے بھاگ کر اپنی سیاسی موت کو خود گلے لگایا ہے
زرداری نے ثابت قدم رہ کر اپنی سیاسی زندگی کو امر رکھا ہے بیشک لوگ اس کے لیے کوئی بھی تاثر لیتے ہوں مگر سیاسی طور پر وہ تمام معاملات کو منہ دے رہا ہے۔ اور پی پی ماضی کی طرح اج بھی سرائیکی خطے کے لوگوں کو سرائیکی صوبہ دینے کی حمایت کرتی ہے اور اس نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ہمیں ایک موقع اور ملا تو ہم آتے ہی سرائیکی صوبے کا اعلان کریں گے مگر قسمت اس بار خان صاحب باری لے گئے اور قدرت نے ان کی بھی سن لی ، لوگوں کی محبت اور بغیر کسی غرض و لالچ کے عوام نے بڑی تعداد میں انہیں منتخب کیا اور جتنے لوگوں نے ووٹ کا انتخاب کیا سوچ سمجھ کر کیا ، اس کے پیچھے دو دو باریاں لوٹ مار کی تھیں ، ن لیگ آتی تو وہ لوٹتی رہی ، پی پی آئی تو وہ اپنے انداز میں لگی رہی ، عوام رُلتے رہے آہ و بکار کرتے رہے کسی نے نہیں دیکھا ، روٹی کپڑا مکان اور روزگار سب کچھ چلا گیا یہاں تک کے ملک کے اثاثے ایک ایک کر کے فروخت ہوتے گئے ، پی آئی اے بھی فروخت ہونے کے قریب تھا، اس طرح بہت سے ایسے اداروں کی نج کاری بھی ہو جاتی جن سے لاکھوں خاندان جڑے ہوئے ہیں ۔ خیر ! اللہ جو بھی کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔
میں تمام مخالفت کرنے والے منتخب ایم این ایز ، اور وزیر اعلی سے درخواست کرونگا، کہ صوبہ جنوبی پنجاب نام یہاں کے لوگوں کے لیے گالی جیسا ہے، جب سندھیوں کے لیے سندھ ہے ، بلوچکی بولنے والے کے لیے بلوچستان ، پختونوں کے لیے خیبر پختونخواہ ، پنجابیوں کے لیے پنجاب تو سرائیکیوں کو نظر انداز کیوں کیا جا رہا ہے جب جب اس خطے کے لوگوں نے مثبت انداز میں پر امن طریقے سے آواز اٹھانے کی کوشش کی ہے تب تب انہیں مختلف طریقوں حیلوں بہانوں سے بٹھا دیا گیا ہے، صوبہ جنوبی پنجاب کا اعلان قریب قریب ہے اور سیکرٹریٹ بہاول پور میں بنا کر سرپرست اعلی کی تمام ڈوریں ق لیگ کے ہاتھ میں دینے کی مکمل پلاننگ ہے جو انقریب منظر عام پر ہوگا، چوہدری پرویز الہی کا پی ٹی آئی کے حق میں ہونے کے پیچھے کوئی نا کوئی لالچ تو ضرور ہے وگرنہ ایسے کون کسی کے حق میں بیٹھ سکتا ہے واللہ علم ! اس کے پیچھے کیا معاھدے ہیں کیا وعدے ہیں مگر طارق بشیر چیمہ کا جنوبی پنجاب کو اتنے بڑے پیمانے پر لیڈ کرنا اور صوبے کے لیے جدوجہد کرنا کیسے ممکن ، جب کہ اگر ٤٠ سال کے عرصے کو کھنگالا جائے تو ہر دوسرا شخص جو پنجابی زبان و قوم سے جڑا ہے تقریبا سرائیکیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، مگر ماضی کو بھول جاتا ہے کہ کس طرح ان تمام پنجابی خاندانوں کو سرائیکی خاندانوں نے سینوں سے لگایا اور زر مال اور زمینوں کے ذریعے انہیں آباد کیا۔
آج جو بادشاہت سرائیکی خطے پر قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اسے سرائیکی خطے پر رہنے والے غیور عوام مسترد کرتے ہیں ، ہر انسان کو حق ہے کہ وہ اپنی شناخت کے ساتھ زندہ رہے اور ترقی کرے اگر کسی اور کی شناخت اس خطے پر مسلط کی گئی تو اس کے اثرات مثبت نہیں نکلیں گے یہ خطے مزید تباہ و بربار ہو جائے گا اور ایسے نفرت کی ہوا چلے گی جس کو روکنا آنے والی سیاسی پارٹیوں کے لیے بہتر نہ ہوگا۔ شاہ محمود قریشی ، خسرو بختیار اور جہانگیر ترین بہت قریب سے اس خطے کے لوگوں کی نفسیات سے واقف ہیں اس خطے میں اکثریت اج بھی بھٹو جکے چاھنے والوں کی ہے مگر کچھ غلطیوں کے وجہ سے یہاں کے لوگ اس پارٹی کو مسترد کر چکے ہیں جس کا ثبوب ماضی کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی ہے۔ اب اگر بار بار وہی غلطیاں دھرائی گئیں تو مستقبل میں پی ٹی آئی کا نام اپر پنجاب میں تو ضرور ہوگا مگر ٢٣ اضلاع کے ووٹروں کے دل سے یہ پارٹی نکل جائے گی اور مستقبل میں اے سیاسی جماعت کے بعد اگر کوئی جماعت بچتی ہے تو وہ پیپلزپارٹی ہے کیونکہ سندھ کے رہنے والے بیشک ان پڑھ ہیں بیشک انگوٹھا چھاپ ہیں مگر وہ اپنی تہذیب اپنی زبان سے محبت کرتے ہیں اپنے محسنوں کو یاد رکھتے ہیں ۔ بھٹو کو مرے سالوں بیت گے مگر آج بھی بھٹو چاہئے پارٹی کچھ بھی کرے یا نا کرے ان کے لیے آج بھی بھٹو زندہ ہے ۔
اس وقت بے وقوفیوں کی بالکل گنجائش نہیں ایسے لوگ بھی ساتھ ہیں جو شرارت کریں گے کہ فسادات جیسا ماحول ہو جائے اور اس ماحول کو کیش کرتے ہوئے وہ کہیں دیکھا ہم نے نہیں کہا تھا کہ پی ٹی آئی اھلیت نہیں رکھتے عمران خان صرف باتیں کرتا ہے ۔ خدارا ایسی شرارتوں کو نظر میں رکھا جائے اور جمہوریت میں بیٹھے با اختیار تمام عناصر کو سوچ سمجھ کیساتھ مثبت فیصلے لینےہوں گے جو خطے کی ترقی اور ملکی مفاد میں بہتر ہوں جس سے اس خطے پر رھنے والوں کیساتھ بھی انصاف ہو اور ان کو حق مل سکے۔ اتنے بڑے پیمانے پر اختیارات اس وقت پی ٹی آئی کے پاس ہیں اور اس خطے کا درد اب پاک افواج کے سینئر افسران بھی سمجھتے ہیں جس کا ثبوت مختلف انداز سے اس خطے کے لوگوں تک پہنچتا رہتا ہے تو کیونکر اس نیکی کے کام کو مزید طول کا شکار کیا جا رہا ہے۔ کسی حقدار کو حق دینا نیکی ہے اس سے دنیا بھی اور آخرت بھی سنور سکتی ہے اچھے حکمرانوں کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اچھے اور تاریخی فیصلے کرجانا جو آنے والی نسلوں کو یاد رہیں اور ان کی دعاووں سے بخشش کا باعث بنیں ۔ دوسری سمت ایسے لوگوں کو دائرہ کار میں لیا جائے جو ملک کے خلاف سوشل میڈیا پر بھونک رہے ہیں اور پنجابیوں کا نام استعمال کر رہے ہیں تو یہ بہت بری عکاسی کر رہے ہیں پنجابیوں کی بھی ۔
چند شر پسند عناصر کی حرکتوں کی وجہ سے نفرتیں بڑھ رہی ہیں ایسے تمام لوگوں کو بھی تلاش کیا جائے تو ان کی کڑیاں کہیں کینڈا سے ملتی ہیں کہیں یورپ سے اور کہیں بھارت سے ۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو بھارت سے بیٹھ کر بھی پنجابیوں کے نام پر سوشل میڈیا پر ہزاروں اکاونٹ بنا کر سارا دن مواد اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں عوام کو آسان طریقے سے کوئی ایسا راستہ بھی دیا جائے تاکہ ایسا مواد جو روز مرہ کی بنیادوں پر شائع کیا جا رہا ہے اس کو روکاجا سکے جو ملک و قوم کے حق میں بہتر ہو صرف وہی مفاد میں ہو۔ مانیٹرنگ لازمی عنصر ہے۔ جب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ سیکرٹریٹ کا نام بہاول پور ہے تب تے سقوط سا تاری ہے ،
میں صرف اتنا کہوں گا کہ سرائیکی صوبہ اگر وجود میں آتا ہے تو اس سے ہر قوم رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر سب کو فائدہ ملے گا زراعت میں خود کفیل سرائیکی خطے کو نظر انداز کرنے کا مطلب یہ ہے ہم ایک دن محتاج ہو جائیں گے دوسروں سے اناج منگوانے کے لیے نمک سستے داموں دیتے رہیں گے۔ دوسری جانب یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ جب ڈومیسل پنجاب کا جنوبی پنجاب اور پنجاب پر ایک رہے گا تو پھر صوبہ ملنا نہ ملنا ایک سا ہی ہے پھر ہم پر گدھے گھوڑے حکومت کریں گے۔ غریب کل بھی انصاف کے در کی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھتا رہتا تھا اور مستقبل میں بھی اس وقت اگر کوئی اس قسم کا غلط فیصلہ لیا گیا تو غریب کل بھی انصاف کے در کے سامنے انصاف کی اپیل لیے بیٹھا رہے گا ، لاہور پر مشتمل پنجاب میں ایک بادھشاہت قائم تو ہو چکی ہے اب اگر دوسری بادشاہت چوھدری پرویز الہی کی صورت میں جنوبی پنجاب بنا کر نوازی جاتی ہے تو یہ خطے کیساتھ اور یہاں رہنے والی ہر قوم کیساتھ ذیادتی کے مترادف ہوگا۔ تحریر : فیصل شہزاد چغتائی