قوم کے پاس دو راستے ھیں تیرنا سیکھ لیں یا ڈوب جائیں
تحریر: فیصل شہزاد چغتائی
موجودہ حالات اس نہج پر ہیں کہ اس وقت سرائیکی قوم کا ہر فرد سمندر میں گر چکا ہے اب یا تو وہ تیرنے کی کوشش کرے اور تیرنا سیکھ لے اور زمین پر آ جائے یا وہ حوصلہ چھوڑ کر ہاتھ پاؤں مارنا چھوڑ دے اور ڈوب کر مر جائے، میرا مقصد قوم ہر فرد کے لیے اپنا قلم استعمال کرنا ہے، اس وقت تو ایک طرف وہ منافقین ہماری قوم کا حصار کیے ہوئے ہیں جو تھالی کے بیگن کی مترادف ہیں کہ جہاں جھکاو ہوتا ہے لُڑک لیتے ھیں اور دوسری طرف ہماری صفوں میں سے شیطان صفت وہ لوگ ہیں جو اپنے مفاد کے لیے قوم کا بے دریغ استعمال کر رہے ھیں اور ہماری قوم کے سادہ لوح فرد اس دلدل میں دھنستے جا رہے ھیں اور اس دلدل سے نکلنے کی کوشش تو دور ہاتھ پاوں مارنے سے بھی عاری ہیں۔۔۔ آج نئے سال کا تیسرا دن لگ ہے، سب قومیں چاہئے وہ سندھی ہوں ، بلوچ ہوں ، پٹھان ہوں یا پنجابی اپنی اپنی نسلوں کے لیے نئے سال میں اچھی سوچ کی پلاننگ کر چکے ہیں اور پہلے سے طے ہو چکا ہے کہ مستقبل کیسے بہتر کرنا ہے اور کس وقت کس ماہ کس دن ہم نے اپنے قوم کے لیے کیا کرنا ہے مگر افسوس ہوتا ہے جب میں مڑ کر اپنے سرائیکی خطے پر آباد لوگوں کے کمزور ذھن دیکھتا ہوں ہوں، افسوس ہوتا ہے جب وہ اپنی غلامی کی زنجیروں کو چوم چوم کر رکھتے ھیں، افسوس ہوتا ہے کہ وہ فرسودہ بے ڈھنگی بگڑی صورتِ ثقافت کو اپنا چکے ہیں، گزشتہ نصف صدی سے زائد صرف قوم میں سے چند ایک لوگ ابھرے جنہوں نے قوم کے لیے درد رکھا اور اپنی چادر کے مطابق کچھ نا کچھ کر گئے جو اب بھی تاریخ کے سنہری صفوں میں زندہ ہیں، مگر اب جس جہالت کے دور میں گانے، شراب کباب، شادی بیاہ پر کھسروں کے ڈانس دیکھنا، چاپلوسیاں کرنا، جہاں بیٹھنا فحاش باتیں کرنا اور گھروں میں بطور مزاق ایسے الفاظ ادا کرنا کہ جس کو سن کر ایک قوم کا نہیں کسی جہالت کے دور میں رہنے والوں کا چہرہ نمایاں ہو وہ عیاں ہوتا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ سوائے چند احباب کے لوگ سدھرنا بھی چاہتے ہیں،،،، مجھے نہیں لگتا کہ میری قوم کے معمار اپنی ذمہ داریوں سے محبت کرتے بھی ہیں کہ نہیں ۔۔ فی الوقت 2019ء کے نئے سال میں بھی میں ایک طویل لائن دیکھ رہا ہوں جو جوتے کھانے کی منتظر ہے اور کچھ تو یہ بھی کہتے پھیرتے ھیں یار جلدی کھلے مارو کم تے ونجوں ۔۔۔ یا اپنی قوم سے جڑے فرد کو گالیاں دینا کہ یہ ایسے ہیں یہ ویسے ہیں !! تو خود سے یہ سوال نہیں بنتا کہ ہم بھی اس قوم کا حصہ ہیں تو ہمارا بھی شمار بھی ان میں ہوتا ہے ۔۔۔ کیوں ہم ہر بار سردار بن جاتے ھیں ۔۔۔ ؟ کہ آج پھر کیلے پر سے پھیسلنا ہوگا ؟؟؟؟ آخر کب تک ہم اپنے ضمیر کو زندہ کریں گے اور کب تک ہم دلوں سے غلاظتوں کو نکال کر باہر کریں گے؟؟؟ چو چیزیں قوم میں غلط ہیں ان کو ہم کب غلط کہیں گے؟ کب ہم ایک دوسرے کو تسلیم کریں گے؟ قوم کی ایک پہچان ہوتی ہے ایک وقار ہوتا ہے اور تہذیب و ثقافت ہوتی ہے سرائیکی خطے کی ثقافت کو اتنے گھٹیا انداز میں منایا جائے ؟ کہاں لکھا ہے کہ شراب پی کر ڈھول پر جھمریاں ماری جائیں؟ کہاں لکھا ہے کہ جس نے کلچر ڈے منانے کے لیے اتنی محبت سے محفل سجائی ہو اور چند قوم کے فرد اسی کو گالیاں دے رہے ہوں؟ قوم کہنا آسان مگر بننا بہت مشکل ہے کیونکہ قوم برادریوں کا مجموعہ ہے اور برادریوں میں اتفاق ، اخلاق اور لفظوں میں میٹھاس ہی اس کی روح ہے ایک دوسرے کا احساس ، میل جول ، ادب یہ وہ اصلوب ہیں جو ہر قوم کی پہچان ہوتے ہیں مگر اس بارے نا ہی کبھی سوچا جاتا ہے اور جو رہنما لیڈر یا قوم پرست بنے ہوتے ہیں وہ اس بارے سوچتے ہیں کہ قوم کو تربیت دی جائے ان میں شعور بیدار کی جائے محافل کا سلسلہ جشن کا سلسلہ تو تب بنتا ہے جب ہم زوال کے دائرے سے باہر نکلیں ۔۔۔ ہماری قوم ایک بد ترین زوال سے گزر رہی ہے جو کہ جہالت ہے اس جہالت میں اپنڑے سے بڑے کو گالیوں سے نوازا جاتا ہے بس ایک شہ پر سب متفق ہیں ۔۔۔ کھل مزاق ۔۔۔ ٹھمکے ۔۔۔ جھمراں ۔۔۔ اور گانے بجانے ۔۔۔ یہ معذرت کیساتھ ہماری قوم کی تعریف نہیں یہ مراسیوں کی تعریف ہے ۔۔۔ میرے الفاظ بہت سے دوستوں کو برے لگیں تو لگیں مگر میں آج صاف الفاظ میں لکھوں گا کہ ہم اپنی تاریخ اپنی ثقافت اپنی زبان اور اپنی قوم کو بھول چکے ہیں !!! جو اصل روح ہماری زبان کی ہے جو ہماری پہچان ہے ۔۔۔ وہ کہیں گم ہو گئی ہے ہم لوگ مہمان نواز ہیں ۔۔۔ ہم ہر قوم ہر برادری کو دل میں جگہ دیتے ہیں ۔۔۔ مگر نفرتوں کے بیج کی آبیاری چل رہی ہے ۔۔۔ نفرتوں کے نعرے بازی اور تعصب کی طرف ایسے عناصر قوم کے فرد کو گمراہی کی طرف لے کر جا رہے ہیں جنہیں خود ہی نہیں معلوم کہ وہ اگر ہاتھ پاوں نہیں ماریں گے تو وہ دوب جائیں گے اور انجام موت ہو گا ۔۔۔ یا تو وہ تیرنا سیکھ لیں یعنی اس دنیا کو خیر آباد کہہ کر حقیقت کو تسلیم کریں اور مزید محنت کر کے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد کریں یا پھر اپنی طرح اپنے بچوں کو بھی چھوڑ دیا جائے اور بعد میں صرف اتنا کہہ کر اپنا دامن جھاڑ لیا جائے کہ جی اللہ دی مرضی۔۔۔ آپ غریب پیدا ہوئے یہ برائی نہیں مگر آپ غریب مرے یہ آپ کی خامی ہے ۔۔۔ یہ بل گیٹس کے الفاظ ہیں ۔۔۔ ہر دوسرا انسان صبح سے شام تک پیسے کمانے کی تگ و دو میں ہے ہر انسان اپنے گھر والوں کو بہتر سے بہتر سہولتیں دینے میں لگا ہے ۔۔۔ ہر قوم اب معذرت کیساتھ بن چکی ہے ۔۔۔ بوری ہوں ، میمن ہوں ، پنجابی سوداگران ہوں، جٹ ہوں گجر ہوں آرائیں ہوں یا بلوچ ہوں سب اتحاد کی مضبوطی مثال بنتے جا رہے ھیں، مگر ہم ۔۔۔ ہم جوں کے توں ہیں اوپر سے یہ طے کر رکھا ہے نا ہم خود سنجیدہ ہوں گے اور نہ کسی اور کو ہونے دیں گے۔۔۔ سنجیدگی کا جہالت سے کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ یقین مانیں میں نے سندھ کو بہت قریب سے دیکھا ہے اتنے سادہ لوح لوگ کہ انہیں لکھنا پڑھنا بھی نہیں آتا انہیں زندگی کی چالاکیاں معلوم نہیں لیکن سب ایک آواز ہیں ۔۔۔ جئے سندھ ، جئے سندھ وارا جیئن ، سندھی ٹوپی اجرک وارار جیئن جیسے نغموں کو تفریح نہیں بطور ملی نغمہ سنتے ہیں اور دل سے ایک آواز ہو جاتے ہیں کسی سندھی میں فرق نہیں دیکھا جب جب جہاں جہاں یہ نغمہ چلا یقین مانیں وہاں کے تعلیم یافتہ سندھی خاندان اور ان پڑھ جاہل انگوٹھا چھاپ سندھی خاندان یک جاں ہوئے اور انہوں نے اس گانے کو سنجیدگی سے دل میں اتارا اور اپنی ثقافت پر جان کے نظرانوں سے بھی دریغ نہیں کیا، میں بہت احترام کی نظر سے دیکھتا ہوں محترم ایاز لطیف پلیجو کو کیونکہ وہ ایک استاد ہیں اس کے بعد وکیل ہیں اور اس کے بعد ایک نڈر قوم پرست ہیں جنہوں نے اپنی سب کچھ قوم کے لیے بلا تفریق رکھا ہے اور ہر اپنی قوم پرستی کو صحیح معنوں میں منوایا، ہم سرائیکی لوگ کس دور میں گھوم رہے ہیں کونسی خامخیالیوں میں مگن ہیں ؟ ہم کب ہوش میں آئیں گے ؟؟؟ خدارا ! ہوش میں آ جائیں اور حقیقت کو تسلیم کریں ۔۔۔ ہماری سرائیکی زبان سے منسلک خاندان اپنی عزتیں بیچ کر اپنا پیٹ پال رہی ہیں ، گھروں میں کام کر کے اپنے گھر چلا رہی ہیں ، اپنے بچوں کو بیچ کر گزارا کر رہے ھیں ۔۔۔ اس سے اور گِر کر کیا ہوگا ۔۔۔ اسلام آباد ہو ، لاہور ہو ، فیصل آباد ہو ، یا کراچی ۔۔۔ ہر جگہ سرائیکی زبان سے منسلک خاندان قوم کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ۔۔۔ یہ تو ہم سب کو نظر آتا ہے مگر یہ ہمیں نظر نہیں آتا کہ ہم باشعور ، تعلیم یافتہ اور مخیر لوگ ایسے لوگوں کو کیونکر گندگی کے ڈھیروں سے باہر نہیں نکال سکتے کیوں میں اصل وجہہ پر نا بات کرنا چاہتے ھیں اور نا ہی سننا چاہتے ھیں اور نہ ہی ہم خود کو تبدیل کرنا چاہتے ھیں ؟ ہمیں تمام بری عادتیں چھوڑنی ہوں گیں اور ثقافت کے نام پر ہونے والے مجروں ، مزاح ڈراموں اسٹیج ڈراموں کی صورت میں ہونیوالی فحاشیوں اور شادیوں میں شراب کھسرے نچانے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا ، یہ ہمارے بزرگان کی تعلیم نہیں اور نا ہی یہ ہماری ثقافت ہے یہ ان لوگوں کو وتیرا ہے جو قوم کے ناسور تھے عیاش پرست لوگ تھے انہوں نے اپنی جاگیریں عیاشیوں میں لٹا دیں آج میں یقین سے کہہ سکتا ہوں ان کی اولادیں خیرات مانگ کر گزارا کر رہی ہیں ۔۔۔ میری مودبآنہ تمام دوست احباب عزیزوں سے درخواست ہے کہ سنجیدہ ہو جائیں اور ہرگز کوئی ایسا کام نا کریں کہ جس سے قوم کی بدنامی ہو اپنی عادتوں کو بدلیں اور حقیقی اتحاد میں آئیں یقینی معنوں میں دل کی میل کو دھو کر ایک دوسرے کو تسلیم کریں اور گلی محلوں علاقوں اور شہری سطح پر جہالت کی دلدل میں پھنسے لوگوں کو ہاتھ دے کر باہر نکالیں اور ان کے ذھنوں کے مطابق ان کی تربیت کریں ۔۔۔ ہرگز اس وھم و گمان میں نہ رہا جائے کہ ہماری قوم کے لیے کوئی دوسری قوم کے لوگ آ کر کام کریں گے ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں خود اُٹھانی ہوں گی چاہئے ہمیں صوبہ سرائیکستان مل جاتا ہے یا صوبہ بہاول پور یا پھر جنوبی پنجاب ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کا تعین خود آج سے کرنا ہوگا، اگر کل پر سب چھوڑے رکھیں گے تو ہو سکتا ہے کل ہماری زندگیوں میں میسر ہو کہ نا ہو، تحریر کا مطلب آپ سب کو دعوت دینا ہے کہ سچ کو تسلیم کرتے ہوئے جو خامیاں ہیں ان پر باریکی سے کام کیا جائے اور ایسے افراد کی تربیت کی جائے جو قوم کے لیے بدنامی کا باعث بن رہے ھیں۔۔۔۔