عہدساز دن کی شروعات چاہئے

فیصل شہزاد چغتائی
By -
0

چند دن پہلے کی سی بات لگتی ہے جب سال 2017 سے 2018ء لگا تھا اور گزشتہ سال 2016ء کے دکھوں کو جھوٹی خوشیوں کی نظر کرتے ہوئے جھوٹے خوابوں کی آغوش میں ہم 2018ء کے لیے اچھی امیدیں اور اچھے خواب لیے پچھلے سالوں کے زوال کو بھول کر نئے سال کی آمد میں لگ گئے کچھ نے کہا ہمارا سال اسلامی محرم ہے جب محرم کی طرف نظر دھرائی تو یادِ شہدا امام حسین ملا، جب انگریزی دنوں میں واپسی ہوئی تو خوشیوں کا ریڈ ریبن ملا، اس سال کو جب اب کہ خدا حافظ کہنے کا وقت آیا ہے تو اس سال کی یادوں میں لپٹے چند سوالیہ نظریں، چند چہرے، بہنوں کے سر میں گھر بیٹھے چاندی کی چمک ، یتیمی کی زندگیاں گزارنے والوں کی ماں اور باپ کو تلاش کرتے بچے، سالہاسال سے اس انتظار سے گھروں میں بیٹھے بچے کہ کب ہمارے باپ کے پاس پیسے آئیں اور کب ہم بھی اسکول پڑھنے جائیں کب ہمارے پاس کتابیں ہوں ، بستہ ہو ، کب ہم بھی اچھے سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے جائیں۔۔۔ باپ کا بچوں کا دیکھنا اور دل تھام کر اندر اندر گھُٹ گھُٹ کر مر جانا، بچوں کے لیے حلال حرام کو جائز قرار دے دینا اس کے بعد بھی انہیں وہ خوشیاں نا دینا جن کے وہ مستحق ۔۔ آخر یہ سال سمٹ گیا ایسے بہت سے خاندانوں کے چشم و چراغ بجھ گئے جو پچھلے سال اس آس سے تھے کہ سال 2018ء بہت اچھا ہوگا آج وہ صاحب قبر ہو گئے اور کچھ تو خاندان توں بچوں کے خوابوں کی تعبیریں کو خریدنے کے لیے کمانے نکلے مگر آہ کہ وہ بچے بھی رخصت ہو گئے ۔۔۔ وہ چند کاغذ کے ٹکڑے ۔۔۔ بس چند آنسو اور رسمی باتیں اور یہ دنیا داری ۔۔۔۔ 2016ء سے 2017ء تا 2018ء کا سفر صرف خوابوں کی تعبیروں میں گزرا اور نا جانے کتنے خواب بے خواب رہے گئے۔ حقیقت میں جب دنیا ٹیکنالوجی کے دور میں آگے سے آگے نکل رہی ہے وہاں ہم پتھروں کے دور کے قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ھیں، سفید پوش خاندان اب مستحق کے دائرے سے بھی نیچے چلے گئے ھیں اور مجبورا" اپنا سب کچھ بیچھ کر اپنا گزر بسر کر رہے ھیں آج چند دوست میری تحریر پڑھ رہے ھیں اور چند آسمان پر آتش بازی کے منتظر ہوں گے، کچھ لوگ شراب کباب پر محافل ترتیب دے رہے ھوں گے اور کچھ پلاننگ کر رہے ہونگے کہ نیو ائیر نائٹ میں کہاں کہاں گھومنے جانا ہے مگر اس نئے سال میں لاکھوں کروڑوں خاندان حسرت بھری نگاہوں سے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہوں گے کچھ بچے پوچھ رہے ھوں کہ ہم کب چلیں گے گھومنیں ۔۔۔ ماں باپ اپنی غریب کو آنکھوں میں چھپائے چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ لا کر کہہ رہے ہوں گے صبح چلیں گے ۔۔۔ کچھ کہہ رہے ہوں گے گھومنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا ۔۔ کچھ ڈانٹ کر اور کچھ سینے سے لگا کر بچوں کو کہانیاں سنا رہے ہوں گے۔۔۔۔
جو معاملات اوپر لکھے یہ تمام اب کے نہیں یہ سالوں سے چلے آ رہے ھیں خود غرضٰی ، انا پرستی اور بس اپنے لیے جینے کی روایت کب سے چلتی آ رہی ہے ایک طرف تو غریب کا رونا روتے لوگ جو ہر روز سسک سسک کر آہ و بکار کر کے مر جاتے ھیں اور دوسری طرف عیاشیوں اور دیگر رسومات کی نظر کروڑوں روپے اُڑاتے ماڈرن لوگ ۔۔۔ لوگ بہت خوش تھے ! الیکشن ہونے والے تھے ۔۔۔ سب نے اپنے سائیکل موٹر سائیکل اور کچھ بسوں پر اور کچھ پیدل چل کر جا رہے تھے والدین بچوں کیساتھ گھروں سے باہر نکلے تھے ۔۔۔ سب نے اچھے کپڑے پہنے تھے عید سا سماء تھا ہر گلے محلے میں لوگوں کے چہروں پر امید کی کرنیں تھیں اور ان غریب اور سفید پوش خاندانوں کی محبت نے ایک شخص پر اعتماد کیا اور اس کی اس لائن پر اعتماد کیا کہ آپ مجھے دیکھیں! کوئی بھی آپ کے حلقے میں ہے آپ یہ دیکھیں کہ میں آپ کیساتھ ہوں غریب عوام کیساتھ ہوں ان کے دکھ میرے دکھ ہیں یہ وہ تمام باتیں تھیں جو واقعی عوام کو جذباتی کر گئیں اور عوام نے حقیقی معنوں میں تمام پرانے سیاست دانوں کو بھاری اکثریت سے مسترد کر دیا، گاؤں سے لے کر شہروں اور شہروں سے لے کر ملک تک اتنی حمایت کی کہ پاکستان کے یادگار الیکشن کے طور پر پوری دنیا میں تسلیم ہوئے۔ مجھے یاد ہیں وہ جیالے پیپلزپارٹی کے وہ جیالے ن لیگ کے وہ دیگر جماعتوں کے چاھنے والے ایک موقع خان صاحب کو دینے کے لیے مجبور ہو گئے کیونکہ ان کے ضمیر نے ایک موقع دینا چاھا نئے چہرے کو نئے انسان کو، یہ سیاست دانوں کے خلاف کھلا اعلان جنگ تھا یہ حقیقی معنوں میں عوام کی طاقت تھی ۔۔۔ بدلے میں پھر خواب آنکھوں میں سمیٹے اخباروں ، ٹی وی چینلوں اور ریڈیو پر دیر تلک خبریں سننے والے اور خود کو تسلی دینے والے کہ اب بہتر ہو جائے گا ، اب انشاء اللہ سب اچھا ہونے جا رہا ہے ۔۔۔ یکدم اس وقت دم توڑ گیا جب کرسی کا نشہ خان صاحب پر چڑھا، وہ عہد و وفا وہ وعدے وہ خواب جو دیکھائے گئے وہ سب کے سب سب کہاں گئے کوئی نا جان سکا ، یکے بعد دیگرے پرانے چہرے تحریک انصاف میں لُڑکتے گئے ۔۔۔ غرض کہ کہ وہ تمام عناصر جنہیں عوام نے بھاری اکثریت سے مسترد کیا وہی لوگ تحریک انصاف پر قابض ہو گئے ۔۔۔ عوام اب ففٹی ففٹی ہیں کچھ کے مطابق جو صدر۔کراچی یا ملک میں مختلف جگہوں پر قابض مافیا (جو در حقیقت بے روزگاری سے تنگ آ کر روزگار کرتے نوجوان ، بزرگ) تھے انہیں ختم کر دیا گیا، ہمیشہ کسی بھی چیز کو اپلائی کرنے کے کچھ اصول ہوتے ھیں اتنی بڑی تعداد میں کتنے گھروں کی کفالت کرنے والوں کو بے روزگار کر دینا بغیر کسی متبادل کے کچھ فوائدے کا سودا نا تھا، نہیں معلوم کتنی بدعائیں خان صاحب کے لیے اب تک نکل رہی ہوں گی وہ جو چند لوگ ایک چھابے میں آمرود لے کر نمک مرچ لگا کر فروخت کر رہے تھے وہ جو ریڑھی والے سڑکوں کے کنارے بچت بازاروں میں اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی دینے کے لیے تگ و دو کر رہے تے وہ تمام بے روزگار ہو گئے ۔۔۔ متبادل رستہ نا فراہم کیا گیا یا وہ لوٹوں کی نظر سے ۔۔۔ سب اچھا ہے َ۔۔۔۔ کی رپورٹ میں بدل گیا۔۔۔۔ تحریک انصاف نے انصاف کے نام پر الیکشن جیتا ۔۔۔ مگر انصاف کے لیے افسوس لوگ ترستے رہ گئے ۔۔۔۔ جو حقدار تھے ان محسنوں کو بھلا دیا گیا جنہوں نے دن رات اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے کام کیا انکو مسترد کر دیا گیا، جیت کے بعد سوشل میڈیا اور بہت میٹنگز میں بار ھا یہ باور کروایا گیا کہ ایک مرتبہ اعزازی صدر ڈاکٹر عبدالقدیر کو بنا دیاجائے ۔۔۔ مگر ایسا نا ہو سکا ۔۔۔ احتساب برحق تھا ہونا بھی چاہئے جس کے لیے احتساب کرنیوالے اداروں کو مضبوط کر کے ان سے باز پرس کی جاتی کہ معاملات کہاں تک پہنچے ۔۔۔ مگر اب تک سو دن پورے ہونے کے بعد بھی حکمران غریب اور مستحق خاندانوں کی فلاح کے لیے کچھ نا کر سکے۔۔۔ اگر تھوڑا سا فنڈ غریبوں کو کھانے پینے کی اشیاء میں سبسڈی کی صورت میں مل جاتا تو غریبوں کو ریلیف ملتا، جیسے کہ ایک غریب گھرانہ ، سبزی ، آٹا ، دالیں ، چینی ، چائے کی پتی ، نمک ، دودھ ، دھی جیسی چیزیں روز خریدتا ہے اور یہ اشیاء اب آسمان سے باتیں کر رہیں ہیں اس بارے بالکل کوئی حکمت عملی اب تک متعارف نہیں کرائی گئی، بڑے شہروں میں سالوں سے کرائے کے گھروں میں زندگیاں گزارتے ایسے خاندان جو کماتے ہیں تو ان کی نصف کمائی کرائے کی مد میں اور بچی کچی سکول مافیا کی زد میں آ جاتی ہے اس کے بعد ان کے بعد اتنی بھی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اپنے بچوں کو اچھا پہنا ، کھلا سکیں ! غربت کی خطرناک ترین سطح پر غریب اس وقت گزر بسر کر رہے ھیں اور پر امید ہیں کہ کاش! کچھ بہتر ہو جائے ۔۔۔۔ اللہ کرے بہتر ہو ! مگر یہ ممکن نہیں ۔۔۔ خان صاحب کو اپنے ارد گرد منافقوں کے ٹولے کو خیرآباد کہنا ہوگا اور اپنی نظر سے اس عوام کے دکھ دیکھنے ہوں گے اور حقیقی معنوں میں ان کی تحریک کو ان کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ جس صوبے کے بارے 2013 میں سب معاملات طے پا چکے تھے اس کے اعلان میں تاخیر کا جواب نا بنتا تھا، اس کا صرف اعلان کرنا تھا، جس طرح غوری میزائل کا تجربہ کر کے کریڈیٹ اپنے نام کیا گیا، کام کوئی بھی ہو اسے اگر وقت پر کیا جائے تو اس کام کو انجام دینے والے کا نام احسن طریقے سے تاریخ میں لکھا جاتا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو پتہ چلے کہ کون کون مخلص تھا اور کس کس نے منافقت کی ۔۔۔ حکومتِ وقت کو نئے سال کی شروعات میں لوٹوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک عہد ساز دن کی شروعات کرنی ہوگی۔۔۔ اس دن میں یہ پوچھنا ہوگا کہ آج کتنے غریب خاندان واقعی مستفید ہوئے اور باقی لوگوں سے پوچھنا ہوگا کہ کیوں لوگ تحریک انصاف سے بدظن ہوتے جا رہے ھیں ۔۔۔ کیا خامیاں ہیں ایسی کونسی باتیں ہیں کہ حکومت عوام دوست نہیں رہی ۔۔۔ کیوں فاصلے بڑھتے جا رہے ھیں؟
ان تمام باتوں کا جواب کسی بھی سفید پوش مستحق خاندان سے پوچھا جائے کہ اسے کیا چاہئے ۔۔۔ تو وہ یہی کہے گا کہ مجھے دو وقت کی روٹی اور اپنا گھر چاہئے اتنی مدد ضرور چاہئے کہ میں اپنے بچوں کے لیے بہتر روزگار کما سکوں۔۔۔لاکھوں کروڑوں خاندان فریادی ہیں وہ اپنی فریاد کس کے آگے پیش کریں اس وعدہ کرنے والے خان صاحب کے یا خان صاحب کے کہنے پر جن جن ناموں کو ووٹ دیئے ان کے گریبان پکڑیں اور پوچھیں کہ ہم نے ووٹ دیا ہمیں انصاف کب ملے گا ؟ کس در پر عوام اپنی فریاد پہنچائیں؟ ملک شدید ترین برھان کا شکار ہے انڈسٹری ، سمال بزنس اور کاروبار ختم ہو چکے ھیں ۔۔۔ پانی ناپید ہوتا جا رہا ہے ۔۔۔ بچے تعلیم سے محروم ہوتے جارہے ھیں کوئی تو شکایت کے مرکز ہوں جہاں لوگ اپنی فریاد ریکارڈ کروائیں جو اعلی حکام تک پہنچیں ، موجودہ حالات تو یہ پیشن گوئی دیتے ھیں کہ ان تمام حالات کے بارے میں خان صاحب کو سرے سے بتایا نہیں گیا یا پھر انہیں بھی اچھی اچھی سڑکیں بڑے روڈ ، اچھے لوگ اور فرضی سفید پوش ،مستحق لوگوں سے ملا کر ان کی تسلی کروا دی گئی ۔۔۔ کہ بس سب اچھا ہے ۔۔۔ ہماری واہ واہ ہو گئی ۔۔۔ ایسا نہیں ۔۔۔ ایک وسیع تعداد میں لوگ تحریک سے بدظن ہو گئے ۔۔۔ پچھلے سے پچھلے سال کی طرح لوگ اس سال بھی آہ بھریں گیں اور اگلے سال کی اچھی امیدیں لئے چل پڑیں گئیں اور اگلے سال 2019ء کے اختتام پر پھر یہی رونا ہوگا ۔۔۔ کوئی فریاد کر رہا ہوگا کوئی رو رہا ہو گا اور کچھ تو پچھلے سال رونے والے رخصت ہو چکے ہوں گے۔۔۔
فیصل شہزاد چغتائی

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)