کبھی سوچا !

فیصل شہزاد چغتائی
By -
0
خواہشات کبھی دم نہیں توڑتیں یہاں تلک کہ آپ دم توڑ جاتے ہیں اور لوگ پھر کہتے ہیں آہ یہ تو چند سالوں پہلے لگثری رہتا تھا گاڑی بنگلہ اور رھن سہن کا مالک تھا، کچھ کہتے ہیں بہت احساس کرتا تھا غریبوں کا کچھ کہتے ہیں میرا دوست تھا کچھ کہتے ہیں کیسا شفیق آدمی تھا ۔۔۔ غرض یہ کہ خواہشات ۔۔۔ اسے لقب "تھا" سے نواز دیتی ہیں۔۔۔ اور پھر روزانہ کا ھجوم انسانوں کی بھیڑ جو قبرستان کے پاس سے گزرتی ہے ایک آدھ کہہ دیتا ہے السلام علیکم یا اہللقبور ۔۔۔ تو شاید خاک میں مل کر بھی احساس ہوتا ہے کہ میں مر گیا ہوں مگر انسانیت اب بھی باھر کہیں زندہ ہے ۔۔۔ اتنا چھوٹا سا سفر ہے اور مختصر ایام بطور آزمائشوں کے اس دنیا میں کاٹ رہے ھیں ۔۔۔ مقصد شیشے کی طرح عیاں ہے مگر مقصد سے نگاہیں چُرا رہے ھیں ۔۔۔ ہم الحمداللہ گھرانے میں پیدا ہوئے مگر ابلیسیوں کے دجالی میڈیا کے رنگ میں رنگے گئے اور رنگینیوں اور پیسے کمانے کی ھوس میں اتنے مگن ہو گئے کہ اپنا اصل بھول گئے ۔۔۔ ناجانے ہم کتنے مزید سال اس گمراہی کی سی زندگی گزارنے میں لگے رہیں گے ۔۔۔ بچپن سے جوانی اور جوانی سے کچھ بننے کا خواب اور کچھ بن کر خواہشات پوری کرنے کا خواب اس کے بعد لمبی نیند ۔۔۔ ایسی نیند جس میں وہ تمام رشتے بھی وقت کیساتھ ساتھ بھول جاتے ھیں کہ کوئی ایک تھا جو ہماری خواہشیں پوری کرنے کے لیے وجود رکھتا تھا آج وہ منوں مٹی کے نیچے کہیں گم ہو گیا اس عملِ زندگی کے دوران کچھ دکھ درد ، کچھ خوشیاں، کچھ ادھورے خواب ، کچھ خواہشیں سینے میں دفن ہو جاتی ہیں ۔۔۔ اب تک میری بہت دوستوں سے بات ہوئی ملاقاتیں ہوئیں ہر عمر کے دوست ملے سب کے معاملات ایک سے ملے ۔۔۔ انسان اندر سے اچھا ہوتا ہے لیکن معاشرے کے اثرات اسے اچھا برا بنا دیتے ھیں اگر کسی علاقے کے رہن سہن میں تربیت دی جائے کہ چوری کرنے کے طریقے کیا ہیں تو یقینا ان کے درمیان رہنے والا بچہ ہمیشہ چور کی ذہنیت میں ڈھل جائے گا اور اگر کوئی سرابیوں کی محفل میں بیٹھے تو اسے شراب بالکل حلال سی لگے گی، بقول اقبال کہ پینی ہے تو سرعام پی چھپ چھپ کے پینے سے کیوں ڈرتا ہے ۔۔۔ فلسفہِ زندگی ہو ۔۔۔ یا آزمائشِ زندگی ۔۔۔ کچھ نا کچھ سیکھا کے جاتی ہے ۔۔۔ بہت سی قوموں میں بہت سی مثالیں وجود رکھتی ہیں مگر ان کی سچائی پر تو یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ پکی ہیں مگر جو مثالیں سرائیکی خطے پر رہنے والے بزرگوں سے چلیں اور سینہ بہ سینہ نسلوں تک پہنچیں وہ حقیقی ہیں اور سچ پر مبنی ہیں سرائیکی کہاوتیں سولہ آنے سچ ہیں ۔۔۔ وہ اس لیے کہ یہ ایک عمل ہے ایک انسان اپنی پوری زندگی کا جزُ جو اس نے سیکھا جسے نچوڑ کہا جا سکتا ہے وہ نصحیت کر کے جاتا ہے اور وہ نصحیت کہاوت میں بدل جاتی ہے اور وہ سلسلہ نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے، پوری دنیا میں عربی سے زیادہ شیریں اور مٹھاس رکھنے والے زبان کوئی نہیں اگر اس کے بعد اگر کوئی زبان مٹھاس رکھتی ہے تو وہ سرائیکی ہے کیونکہ پشتوں کے سلسلے کڑیاں عرب سے جا ملتی ہیں ۔۔۔ بہت دوست سوچتے ہوں کہ کہ بیٹھے بیٹھے جوش کیوں آ جاتا ہے ۔۔۔ کیا وجہہ ہے تو یہ وہ خون ہے جو نسل در نسل رگوں میں گرمائش کرتا چلا آ رہا ہے اور چلتا رہے گا ۔۔۔ ہم صبح سے شام تک بہت باتیں کرتے ھیں بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ھیں اور رات کی سیاہی میں سب کچھ بھول کر لمبی تان کر سو جاتے ھیں اور دوبارہ پھر سے خود کو خوابوں کی گمراھیوں میں گمراہ کر دیتے ھیں ۔۔۔ ذرا بھر مٹے کے زرے برابر بھی ندامت نہیں ہوتی کہ جو کل گزر گیا وہ ہم نے ضائع کر دیا وہ جو کل گزرا تھا شاید ! منوں مٹی تلے دب جانے کے بعد اس کل کے گزرنے پر ہم ندامت کریں کہ کاش ! اس دن ہم یہ کر لیتے ۔۔۔ خواھشات کے جن کو تو جتنی آزادی دیں گے وہ اتنا کھائے گا پیئے گا ۔۔۔ مگر اس کو لگام دیں گے تو یہ خواہشات کام بھی کریں گیں ایسے جیسے کوئی موکل کسی کے تابع ہع کر کام انجام دیتا ہے، زندگی کو دلچسپ بنانے کے لیے خواہشوں کو متبادلہ جو کہ ایکسچینج کھلاتا ہے اسے کرنا ضرور بنتا ہے، کبھی میں اپنے رب العزت کے قانون کو دیکھتا ہوں تو دل عش عش کر اُٹھتا ہے کہ اگر گناہ کی نیت کروں تو فرشتوں کا لکھنے کا حکم تک نہیں اور اگر کسی کی بھلائی کا ارادہ کروں تو اس کے بھلائی کے ثواب سے نواز دیا جاتاہے تو ایسی قدرت تو صرف میرے رب العزت کی ہے میرے اللہ کی ہے جس نے ہمیں ایسا دین دیا کہ جہاں کسی کے بارے اچھا سوچنے پر بھی نوازا جاتا ہے وہ پاک ذات بلا تفریق نوازتی ہے بلا قوم بلا رنگ بلا نسل بلا مذھب و فرقہ نوازتی ہے۔۔۔ ایک ہم اور آپ انسان ہیں کہ اپنے حصے کا کھا کر بھی کسی کے بارے اچھا سوچنے کی جرُت نہیں کرتے ۔۔۔ جب کسی کی مدد کی بات ہو تو ہم پر ایسا سکتہ تاری ہو جاتا ہے کہ جیسے کیسی نے ہم سے جان مانگ لی ہو ۔۔۔ ہم سب کے ذہنوں میں ایک بات گھر کر چکی ہے کہ اگر ہم کسی کی مدد کریں گے تو ہم غریب ہو جائیں گے اور ہم بھی کل مانگنے والوں کی صف میں ہوں گے ایسا ھرگز نہیں ۔۔۔ یہ وہ جھوٹی کہاوتیں اور بناوٹی باتیں ہیں جو انسان کو انسان سے جدا کرتی ہیں ۔۔۔ رسول اللہ کی بارگاہ میں ایک صحابی حاضر ہوا اور بولا یا رسول اللہ میرے حالات بہت تنگ ہیں تو آپ نے کہا کہ چاول پکا کر کھایا کرو ۔۔۔ کچھ دیر بعد ایک اور صحابی حاضر ہوا اس نے کہا یا رسول اللہ میرے پاس اتنا زر و مال ہے کہ خرچ کرتا ہوں کم نہیں ہوتا بڑھتا ہی رہتا ہے کوئی ایسا عمل بتائیں جس سے یہ کم ہو جائے۔۔۔ آپ نے اسے بھی یہی کہا کہ چاول پکا کر کھایا کرو ۔۔۔ مجلس میں بیٹھے احباب نے آپ سے سوال کر دیا کہ یا رسول اللہ یہ کہا ماجرہ ہے کہ آپ نے غریب کو بھی چاول کھانے کا بولا اور امیر کو بھی ۔۔۔ تو محبوب اللہ نے فرمایا کہ غریب اگر چاول پکائے گا تو جو چاول کا دانہ نیچے گرے گا اسے بھی اٹھا کر کھائے گا ۔۔۔ اس سے اس کے رزق میں اضافہ ہوگا اور امیر اگر چاول کھائے گا تو وہ پلیٹ میں اتنے چاول چھوڑ دے گا جس سے اس کے رزق میں کمی آتی رہے گی ۔۔۔ ہمیں اپنے رسول اللہ سے اپنے ولیوں سے ایسی ھزارا ھا مثالیں ملیں گیں جو ہمیں انسانیت کا درس دیتی ہوں اور ہمیں اپنے مقصد کی یاد دھانی کرواتی ہوں ۔۔۔ میری نظر سے ایک پوسٹ گزری جس میں لکھا تھا کبھی کسی دینے والے کو غریب دیکھا ہے ۔۔۔ ؟ تو واقعی میں کافی دیر تک سوچتا رھا واقعی مجھے جتنے دینے والوں کے نام یا چہرے یاد تھے ان کو آج تک مانگتے نہیں دیکھا صرف دیتا دیکھا۔۔۔ مطلب یہ کہ کسی کی مدد کرنے یا کسی کو کچھ دینے سے نا انسان غریب ہوتا ہے اور نا مال میں کمی آتی ہے اگر اپ کی آمدن پانچ ہزار ہے تو اس میں بھی آپ کا گزر بسر ہوگا اور اگر آپ کی آمدن پانچ لاکھ ہے تو اس میں بھی آپ کا گزر بسر ہوگا اگر کمائی میں اضافہ چاہتے ھیں تو اپنی کمائی میں سے صدقہ خیرات اور زکوات نکالنے کی عادت بنائیں ۔۔ پھر دیکھیں کہ یہ تجارت کتنا نفع دیتی ہے ۔۔۔ اگر آپ کو پتہ چل جائے کہ کتنا ثواب کسی کی مدد سے ملتا ہے تو ساری زندگی کسی اور کام کو اہمیت بھی نا دیں ۔۔۔ جیسا کہ اگر ہم کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیتے ہیں اور اس کھانے سے اس کے جسم میں خون کا ایک قطرہ بنتا ہے اور اس خون سے بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ خون نسل در نسل جو کام کرے گا اس میں آپ کو بھی ثواب ملتا رہے گا۔۔۔ وہ خون اس کی اولاد کی شکل میں ہو یا اولاد کی اولاد کی شکل میں آپ کو اجر ملتا رہے گا ۔۔۔ دنیا میں اس مختصر زندگی میں خواہشات پوری کرنا پیسہ جمع کرنا جائیدادیں بنانا اور رخصت ہو جانا ہی زندگی نہیں ! زندگی میں رب العزت کی طرف سے ملنے والا رزق اولاد ہے ۔۔۔ سکون و آرام دولت سے نہیں ماں کی دعاوں سے ملتا ہے ۔۔۔ ہم سب مختلف جسموں اور مختلف شکلوں کیساتھ اس دنیا میں آئے ھیں بظاہر یہ دنیا خوبصورت مگر ایک آزمائش ہے اس دنیا میں کس نے کیسے کمانا ہے اور میرے اللہ نے کس طرح کس کو آزمانہ ہے یہ کوئی انسان آپ سے جب یہ فریاد کرتا ہے کہ "اللہ کے نام پر کچھ دے دو" تب پتہ چلتا ہے جو اللہ بغیر کسی طلب کے نوازے جا رہا ہے اس کے نام پر انسان کیا دیتا ہے ۔۔۔ ؟
اللہ پاک ہم سب کو ایک ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم سب ملکر ھزاروں لاکھوں مستحق سفید پوش خاندانوں ، یتیموں بیواوں کی مدد کر سکیں اور اپنی آخرت سنوار سکیں۔
الداعی الخیر
فیصل شہزاد چغتائی
چیئرمین
اے ایس ڈبلیو او ، کراچی۔پاکستان

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)