سرائیکی خطہ کی ڈویلپمنٹ کے لیے اب مخلص ہونا ہوگا
جو حقدار ہیں وہ اس خطے کے مقامی لوگ ہیں جو وارث ہیں، وہ پردیسوں میں اپنے ھنر کی بدولت زندہ ہیں وہ خطے کی ترقی میں اپنا کردار چاہتے ھیں
نوجوانوں کے بہتر مستقبل اور علاقائی سطح پر اس خطے کی ڈویلپمنٹ نصف صدی کے انتظار کے بعد حقیقی ھونے کی منتظر ہے
قوم پرستی کی آڑ میں آرام پرستی کی جا رہی ہے وگرنہ کوئی مشکل نہیں کہ صوبہ سرائیکستان وجود میں نا آئے قوم پرست اگوان اور لیڈر کیساتھ ساتھ قوم کے فرد بھی غیر سنجیدہ ہیں ! سوائے چند دوستوں کے جو دل روح و جان کے اندر وسیب کی محبت رکھتے ہیں اور خطے سے جڑے رہنے کا ثبوت ہی حقیقی محبت ہے، تحریک صوبہ سرائیکستان در حقیقت ایک خطے کی ڈویلپمنٹ کی تحریک ہے جس کا مقصد اپنے پیارے ملک پاکستان کی ترقی میں سرائیکی خطے والوں کا اپنا حصہ ملانا ہے پاکستان کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک اگر کسی قوم نے اپنی ذات کی نفی کی ہے تو وہ صرف سرائیکی ہیں ۔۔۔ ایک ریاست اور صوبہ میں بہت فرق ہوتا ہے ریاست اس وقت پاکستان ہے اور صوبے پنجاب، سندھ ، بلوچستان خیبر پختونخواہ ہیں ۔۔۔ ریاست اہمتی رکھتی ہے کیونکہ تمام صوبائی و قومی نظام ریاست کے زیر نگرانی چلتا ہے، جس وقت پاکستان وجود میں آیا تو بھارت اور پاکستان کے درمیان میں ایک ریاست جیسے تاریخ چاہے بھی تو نہیں مٹا سکتی اس کا نام بہاول پور تھا، جسے بعد ازاں صوبائی حیثیت دینے کے خواب دیکھائے گئے مگر ون یونٹ صوبہ کی صورت میں ضم کر دیا گیا اور وقت کی رفتار اور جمہوریت کے نام پر دھول اور مٹی نے اسکی شناخت کو ختم سے ختم تر کر کے صوبہ پنجاب میں ضم کر دیا، جسے بد ترین تاریخ کا باب کہا جا سکتا ہے، ایک ریاست کا نظام ہوتا ہے جیسے کہ پاکستان کا جھنڈا ، آرمی ، قانونی ادارے ، جمہوری نظام ، دارالخلافہ ، اسی طرح ریاست بہاول پور نے اپنا سب کچھ بھلا کر پاکستان کے لیے لبیک کہا، یہ واحد ایسی قوم ہے جو کہیں سے ھجرت کر کے نہیں آئی صدیوں سے ایک خطے پر ایک طرز کے رہن سہن رسم و رواج اور میل ملاپ سے چل رہی ہے کمال بات ہے کہ جو 150 سال قبل از اس ریاست پر مشتمل شہروں کی اہمیت تھی جو عروج تھا اسے یورپ اور امریکا نے تسلیم کیا، یہ وہی ریاست بہاول پور تھی جس نے اس وقت یورپ کی مدد کی جب ان کی سڑکوں پر کیچر رھتی تھی، اسی ریاست کے نوابوں نے یورپ کی ڈویلپمنٹ میں اس کی مدد کی۔ آج اس کے محسنوں کو تو مٹا ہی دیا گیا اس کا وجود بھی مٹا دیا گیا ہے، اب اس ریاست کو ون یونٹ سے ، صوبہ پنجاب میں ضم کیا گیا اور اس کے بعد صوبہ پنجاب کا صرف ایک شہر کا درجہ دے دیا گیا، جو کہ تاریخ کیساتھ جمہوریت پر قابض ماضی میں رہنے والے مفاد پرست ٹولوں کی بدولت ہوا، پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل جو علاقے صوبائی حیثیت رکھتے تھے انہیں بھی پنجاب میں ضم کر دیا گیا، گویا بھارت سے ھجرت کر کے آنیوالوں نے مقامی رہائشیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹریٹ کیا، ڈنٹے اُٹھائے اور علاقائی ، جغرافیائی ، ثقافتی شناخت مٹانے پر دن رات ایک کر دیا جس کے ثبوت آج بھی ھزاروں ویب سائٹ ، بلاگز اور سوشل اکاونٹ پر تعصب پھیلاتے ہوئے ملتے ھیں، 35 سالہ آرام پرستی میں ان مہاجروں نے بڑی قوموں کو ختم کرنے کے لیے تگ و دو شروع کی اور نوبت جب سرائیکی قوم تک آئی تو ہمارے اگوان، قوم پرست موسمی لیڈروں کو تب پتہ لگا جب مردم شماری میں 70 سے 80 فیصد ایک زبان سے منسلک لوگ ظاہر ہوئے ، جب معاملہ بڑھا تو پتہ چلا کہ جو سرائیکی خطے پر وجود رکھنے والے شہر تھے ان میں سرائیکی خاندانوں کے خاندانوں کو پنجابی لکھا گیا کیوں کہ اسمیں سرائیکی کا ذکر ہی نہیں تھا، سرائیکی قدیم لوکل زبان ہے جو ھزاروں سالے سے اس خطے پر بولی جا رہے ہے کو دیگر زبانوں میں ریاست کی طرح ضم کر دیا گیا، ایک طرف اردو سندھی اور پنجابی اور دوسری طرف تمام زبانوں کو دیگر زبانیں کہہ دیا گیا یہ پوری دنیا کو رپورٹ دی گئی جس پر محترم بیرسٹر تاج محمد لنگاہ نے اقوام متحدہ کے خلاف ایک رٹ دائر کی اور ماضی میں ہونیوالی مردم شماری کو بوگس قرار دیا اور مطالبہ کیا گیا کہ مردم شماری کے فارم میں سرائیکی زبان کا منفرد خانہ بنایا جائے اور انہوں نے قانونی طور پر کیس جیتا اور اقوام متحدہ نے تسلیم کیا قوم کو اور زبان کو۔۔۔ محترم تاج محمد لنگاہ اپنے کاز کو اپنے سینے میں لیے رخصت ہو گئے اس کے بعد باگ دوڑ سنبھالنے کے لیے سالوں کی سست روی رہی نہ ہی کسی لیڈر نے سنجیدگی سے قوم کے لیے اپنی خدمات انجام دیں اور نا ہی کوئی قانونی جغرافیائی یا ویلفیئر کی سطح پر کوئی کام کیا، ھاں البتہ یہ ضرور کیا کہ ان کے ووٹوں پر انہی پر راج کیا، اور انہیں گدھے گھوڑوں اور بکریوں کے ریوڑ کی طرح سمجھ کر صبح سے شام تک چرایا گیا اور اپنے اپنے مفاد کو کیش کیا گیا، اس خطے کی بد حالی میں اس خطے پر کثیر التعداد میں منافقوں نے بھی خوب مدد کی اور داد لی اور وہ بھی سرائیکی خطے کو صوبہ پنجاب میں تبدیل کرتے گئے، جس کا ثبوت ماضی میں ہونیوالی سستی الاٹمنٹ صرف پنجابی زبان سے منسلک افراد کو کی گئی، زمینیں تحفوں میں دیں گئیں اور سرائیکی خطے پر غیر آباد علاقوں کو اونے پونے فروخت کیا گیا، یہ سب ممکن ہوا اس وقت جب صوبہ پنجاب کا دائرہ بڑھا دیا گیا ان سب کے پچھیے دو بڑی سیاسی پارٹیوں کا بہت بڑا ہاتھ رھا اور لوگ بیچارے ایک پارٹی سے جوتے کھاتے تو دوسری پارٹی کی گود میں بیٹھ جاتے وہ پارٹی بھی جوتے مارتی تو پہلے والی پارٹی کی گود میں بیٹھ جاتے کیونکہ اس پارٹی نے کچھ کم جوتے مارے تھے لیکن جب وہ پارٹی اس سے زیادہ جوتے مارتی تو جس نے گزشتہ جمہوری حکومت میں جوتے مارے وہ کم لگے وہ اس کی طرف لپک لیا، معذرت کیساتھ اب تک سرائیکی خطے پر سیاسی شعور کو بیدار ہونے ہی نہیں دیا گیا کیونکہ جو مال آتا وہ ایم این اے ، ناظم ، چیئرمینوں میں بندر بانٹ ہو جاتے اور کاغذ میں سرائیکی خطے کی ڈویلپمنٹ آسمان پر اور حقیقیت میں ریت کے ڈھیر اور مٹی اور دھوڑ۔۔۔ سب نے کھایا اور مل بانٹ کر کھایا، تھانوں کی اعلی پوسٹوں پر ایک ہی زبان جسے مردم شماری میں 80 فیصد کا درجہ دیا گیا ان سے منسلک افراد کو اہمیت دی گئی ، گورنمنٹ کے اداروں کی بڑی کرسیوں پر بھی پنجابی زبان سے منسلک افراد کو مسلط کیا گیا، ہسپتالوں کے ھیڈ ہوں ، تعلیم ادارے ہوں یا انصاف کا در ہو ہر جگہ سرائیکیوں کے لیے بند کر دی گئی کوئی نا بولا ! نا کوئی لیڈر ، نا کوئی قوم پرست اور نا ہی وہ منافقین جو اسی خطے کی کمائی (ووٹ) لے کر منتخب ہوئے، منتخب ہوتے ھی ایک چپ سی لگ جاتی ہے یہ کچھ رواج سا ہے اس خطے پر، گزشتہ مردم شماری میں ہونیوالی دھاندلی اس بار کچھ کم ہوئی کیونکہ سرائیکی خطے پر رہنے والے خاندانوں نے اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اور چٹنی روٹی کھا کہ ایک آدھ بچے کو تعلیم دی تاکہ وہ ان معاملات کو سمجھے ، جب نوجوان پڑھے لکھے تو سمجھ آیا کہ یہ تو معاملہ ہی کچھ اور ہے مردم شماری کروانے والے افسران ہوں یا فارم فل کرنے والے لوگ سب کے سب سرائیکیوں کو پنجابیوں میں تبدیل کرنے میں دن رات مگن ہیں ۔۔۔ ایک خطے کی شناخت کو مٹا کر پکی پینسل سے پنجاب لکھ دیا گیا، پھر چند سالوں پہلے ایک تحریک چلی جس میں تمام پنجابیوں کو اکسایا گیا کہ پنجاب میں رہنے والے پنجابی ہیں اور جو پنجاب سے محبت کرتا ہے وہ پنجاب میں رہے ورنہ پنجاب سے دفع ہو جائے، جب پانی سر تک آن پہنچا تو آہ کہ چند احباب کو ہوش آیا کہ اس طرح تو ہم سب وسیب کے وارث خطے کے وارث ، لاوارث ہو جائیں گے ۔۔۔ تب چند نوجوانوں نے مل کر جدوجہد شروع کی اور سوشل میڈیا پر اپنی آواز کو بلند کیا تحریک جوش میں آیا اور تمام مردہ ضمیروں میں جان آ گئی اور اپنی اپنی پوشاکیں اپنے اپنے کاٹن کے سوٹ پہن کر سالوں کے بعد ابھرنے والی تحریک کو اپنے ناموں سے تفیض کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا، اتنے میں حالیہ الیکشن ہوئے اور سیاسی ٹولہ جو کہ صدیوٖں سے اپنے وعدوں سے منحرف ہوتا رہا اور اپنی مفادات تک محدود رہا اس نے ڈرامہ کیا اور اس ڈرامے میں اس نے ظاہر کیا کہ تمام سرائیکی خطے سے ابھرنے والے آواز صوبہ سرائیکستان کو صوبہ جنوبی پنجاب کا نام دے دیا جائے اور چند ہم ذہن لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا اور اخبارات ، الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنی گُڈی چڑھائی اور نوجوانوں کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی آغوش میں آ بیٹھے اس کے بعد تو کون اور میں کون ۔۔۔ صوبہ جنوبی پنجاب ۔۔۔ کونسا ! اور کہاں کا محاذ ہم سب بھائی بھائی ، جیسے چور دا چور یار ویسے سیاست دانوں کے سیاست دان یار ، سنگی بیلی ۔۔۔۔ مگر اس بار جو الیکشن ہوئے یہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے الیکشن تھے جو بغیر زور زبردستی کے ہوئے عید سا سماں تھا لوگ اپنی گاڑیوں اپنی سائیکلوں اور اپنی موٹر سائیکلوں اور پیدل چل کر پول اسٹیشن تک پہنچے اور اپنا حق (ووٹ) کا اظہار کیا اور تحریک انصاف پر اعتماد کر کے ٹھپہ لگایا، سرائیکی خطے پر بسنے والے لوگوں نے منافقین کے ٹولے پر ٹھپہ اس لیے لگایا کیونکہ ! عمران خان چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ آپ مجھے دیکھیں اور ووٹ دیں یہ نا دیکھیں کہ آپ کے علاقے میں کھڑا ہونے والا کون ہے صرف عمران خان کو دیکھ کر اس پر اعتماد کر کے لوگوں نے ووٹ کی طاقت سے پی ٹی آئی کو جتوا کر ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ سرائیکی خطے کے لوگ اپنا وجود اور اہمیت رکھتے یں مگر افسوس ! کامیاب ہونیوالی پارٹی نے اپنی حکومت (ہاتھ) مضبوط کرنے کے لیے کھینچا تانی شروع کی اور گدھے گھوڑے سب بھرتی کر لیے وہ وہ لوگ پارٹی میں بھرتی کیے جنہیں عوام بھاری اکثریت سے ماضی میں ووٹ نا دے کر مسترد کر چکی تھی، اب وہ لوگ ہیں اور سرائیکی خطے کے عوام تحریک انصاف سے کے در سے انصاف کے منتظر ہیں۔ 2013 میں صوبے کے حوالے سے تمام کام مکمل ہو گیا تھا صرف اعلان کرنا باقی رہ گیا تھا تمام ورک مکمل ہونے کے بعد جغرافیائی سطح پر دو صوبوں کا قیام عمل میں آنا تھا جس میں بہاول پور (ریاست پر مشتمل شہروں) پر ایک صوبہ کو وجود میں لانا تھا اور ملتان سے ملحقہ شہروں پر مشتمل دوسرا صوبہ وجود میں لانا تھا جس میں سب کی رضا مندی تھی، کیونکہ یہ تقسیم نا ہی قومیت کی وجہ سے تھی اور نا ہی زبان کی وجہ سے یہ جغرافیائی وجہ سے علاقائی ڈویلپمنٹ کے لیے تھی، تاکہ ملتان کے نزدیک شہروں کا نظام ملتان کے ذریعے چلے اور جلد از جلد پراجیکٹ تکمیل تک پہنچیں اور تمام ایسے معاملات مقامی سطح پر حل کیے جائیں۔ اور ریاست پر مشتمل تمام شہر جو کہ ریاست بہاول پور تک باآسانی رسائی رکھتے ھیں اس لیے ریاست کو صوبہ درجہ دینا تھا ۔۔۔ یہ تمام کام پہلے سے ماضی میں ہو چکا ہے بس صرف اعلان کرنا ہے جو کہ تحریک انصاف اگر کرتی ہے تو اس تحریک کو سنہرے حروف میں یاد رکھا جائے گا اور عمران خان جیسے لیڈر کو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا، کیونکہ وہ سرائیکی خطے کے محسن ہوں گے اور اس خطے کا حصہ بھی وہ ہیں نیازی خاندان کا تعلق سرائیکی خطے اور زبان سے ہے ، عثمان بزدار وزیر اعلی پنجاب کا تعلق بھی سرائیکی خطے سے ہے شاہ محمود قریشی کا تعلق بھی سرائیکی خطے سے ہے درحقیقت یہ جمہوری نظام اس بار سرائیکیوں کے ہاتھ میں ہے اس کے باوجود پاکستان کے پسماندہ خطے پر نظر ثانی کرنے میں تاخیر کرنا ایک سوالیہ نشان ہے ایسے کونسے معاملات ہیں جو صرف اعلان کرنے کے آڑے آ رہے ھیں کچھ معلوم نہیں ۔۔۔ عوام تک صرف کھسر پھسر کی سرگوشیاں آ رہی ہیں ۔۔۔ زندہ ہونیوالے تمام قوم پرستوں ، شاعروں ادیبوں دانشوروں ، لیڈروں اگوانوں اور سیاسی نئی پارٹیوں کے سرپرستوں کو اب حقیقی معنوں میں اپنے زندہ رہنے کا ثبوت دینا ہوگا آرام پرستی کو چھوڑ کر قوم پرستی کرنی ہو گی جس کا مطلب اپنے خطے سے محبت کرنا ہے جو کہ در حقیقت پاکستان کی سر زمین ہے اس سے محبت کا ثبوت دینا ہے جس کی ڈویلپمنٹ کے لیے آگے برھنا ہے اور قوم کی تربیت کیساتھ ساتھ نوجوان نسل کے مستقبل کو بھی بہتر بنانے کی جدوجہد کرنی ہے اور قوم سے جڑے جو لوگ مسلسل بدنامی کا سبب بن رہے ھیں ان کو بھی اچھے اخلاق کیساتھ سمجھا کر راہ راست پر لانا ہے ہم سب پاکستانی ہیں الحمداللہ! اور اپنے سرائیکی خطے سے محبت کرنے والے اور ایک قوم ہیں ۔۔۔ اب ہم سب کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، مگر راہ حق پر رہ کر سرائیکیوں کی صفوں میں سرائیکی سیکھ کر شامل ہونیوالے ایسے افراد کو نکال باہر کرنا ہوگا جو تعصب کی فضاء پیدا کر رہے ھیں تاکہ ہم ایک اچھے معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ حکومت سے التماس ہے کہ وہ سرائیکی خطے پر آباد قوم کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے اور اس خطے کر طے شدہ صوبوں کے طرز پر وجود میں لایا جائے جب بات پاکستان کی ترقی کی ہو تو اس میں تعصب پیدا کرنے والے شور وایلا کرنے والوں کو مسترد کر کے ریاست اپنا کردار ادا کرتی ہے اور بہتر اور احسن قدم یہی ہے کہ اس خطے کے لوگ حق رکھتے ھیں ڈویلپمنٹ کا جو وارث ہیں وہ پوری دنیا میں اپنے رزق کی تگ و دو میں لگے ھیں اگر گھر میں روزی روٹی مل جائے تو وہ بھی شکر گزار ہوں اور اپنے ملک کی ترقی میں اپنے ھنر کا اطہار کریں۔
از قلم
فیصل شہزاد چغتائی
03312613943
فیصل شہزاد چغتائی
03312613943
JOIN ASWO | https://goo.gl/oGuLWa