بینک سے ھاوس فنانس کروائیں یا نیا پاکستان ھاوسنگ پراجیکٹ کے ذریعے 20 فیصد ایڈوانس دینا ہوگا اور 80 فیصد کی انسٹالمنٹ کچھ نیا آپ کے لیے نہیں !!! اس لیے Just Chill
غریب کے پاس اگر 20 فیصد رقم دینے کے لیے ہوتی تو بینک سے پہلے ھاوس کے لیے قرض لے چکا ہوتا، غریب صرف امیروں کے فیکٹریوں کے ایندھن کی مانند ہیں جب تک زندگی ہے ہر کوئی انہیں استعمال کرے گا کہیں یہ غریب کاٹن اٹھائیں گے کہیں لوڈنگ کریں گے کہیں یہ سلائی کریں گے کہیں پیکنگ کریں گے کہیں یہ گالیاں سنیں گے مگر ساری زندگی میں اگر اپنی جان بھی لگا دیں تو ایک گھر کے لیے ٢٠ فیصد جمع نہیں کر سکیں گے کیونکہ غریبوں کو ایک دائرے بنا کر اس کے اندر قید کر دیا گیا ہے تاکہ کچھ پاس ہو اور نا ہی وہ کچھ سوچے! صرف اتنے وسائل کا در ان کے لیے کھولا گیا ہے جس میں وہ صرف زندہ رہ سکیں ۔۔۔ صبح غریب اٹھتا ہے تو روزگار کے لیے نکل جاتا ہے شام تک اپنی زندگی بیچ کر ، مالک مکان، بجلی ، گیس کے اداروں اور موبائل کمپنیوں کو پالتا ہے جو پیسے بچتے ہیں اس سے کچن میں کچھ راشن ڈلوا لیتا ہے اور پھر مہینے کی آخیر میں یہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔۔۔ روزگار کی تگ و دو کرتے لوگوں کو اپنا گھر چلانے کے لیے ٨ سے ١٦ گھنٹے نوکری کرنی پڑتی ہے جب کہیں جا کر ان کے بچوں کے تعلیم کے اخراجات کم و بیش پورے ہوتے ھیں وہ دس سال میں ایک لاکھ روپے کی سیونگ کرنے کے قابل نہیں ہوتا تو ایسے طبقے سے کہنا کہ آپ ٢٠ فیصد دے دیں آپ کو گھر دیتے ہیں تو یہ ایک کھلا مزاق ہے اور ہر سفید پوش خاندان کی تذلیل ہے۔ جمہوریت جب اپنے ملک کے شہروں کے بارے کچھ بہتر سوچتی ہے اس کے لیے درد رکھتی ہے تو اس کے شہری بھی اس جمہوریت کی گیت گاتے ہیں اس وقت کرپشن کرے کوئی اور بھرے کوئی والی مثال چل رہی ہے ، جن لوگوں نے کرپشن کی وہ تو پکڑے گئے میں ان کی آڑ میں کروڑوں خاندان غربت کی بھٹی میں جل رہے ھیں جس کے بارے نا ہی کوئی ادارہ اپنا وجود رکھتا ہے اور نہ ھی ان کے حالات بدلنے کی کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔ عمران خان وزیر اعظم غریبوں کے لیے سینے میں درد رکھتے ھیں مگر ان کے آجو باجو جو لوگ ہیں وہ چیک وال کی طرح ھیں جو اوپر سے نیچے تقسیم کے لیے آتا ہے وہ وال کو بند کر دیتے ھیں اور اپنے اجو باجو دیکھتے ہیں کوئی کزن نکلتا ہے کوئی کزن کا سسرال والا تو ریوڑیاں بانٹی تو ضرور جاتی ہیں مگر ملتی اپنوں اپنوں کو ہی ہیں ھاں لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے کہ ہم نے یہ کیا۔ ہم یہ کر رہے ہیں جس سے سب کو فائدہ ہوگا ۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ کبھی کسی جمہوری حکومت میں کسی غریب خاندان تک فوائدہ ڈائرکٹ پہنچا ہو، ایک دو دن پہلے صوبہ خیبر پختونخواہ پر یہ ذمہ داری لگانا کہ ٢٠ ھزار سے ٣٠ ھزار تنخواہ لینے والے سرکاری و نجی ملازمین پر ١٢٠٠ روپے ٹیکس عائد کر دیا جائے تو یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ تمام صوبے اپنا اپنا صوبائی نظام خود چلائیں ہم نے قمیض جھاڑ لی ہے اب صوبے کے لوگوں سے ھی نچوڑا جائے اور صوبے کے ترقیاتی کاموں پر لگایا جائے۔ ٹیکس کل بھی بھی غریب دے رہے تھے اور آج بھی مزید ٹیکس غریبوں پر ہی لگے ہیں اور ان ٹیکسوں کا سلسلہ آدھی صدی سے چلا آ رہا ہے مگر سہولتوں کے بارے جب پوچھا جائے تو جھاڑ دیا جاتا ہے، ہر شہری آج باشعور ہے اور اتنی سوجھ بوجھ رکھتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ڈرامہ ہوتا چلا آ رہے ہے اور ہو رہا ہے جتنی کمپنیوں پر ٹیکس لگائے جاتے ہیں
وہ ان ڈائرکٹ عوام پر ہی مسلط ہوتے ہیں ۔ حکومت نے ٹیلی کام انڈسٹری پر ٹیکس لگایا وہ ٹیکس گھوم پھر کر عوام پر لگا اور ابھی تک ١٠٠ روپے دے کر ٦٥ روپے موبائل میں ملتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح کھلے آئیٹم جو روز مرہ استعمال ہو رہے ھیں ان کو فروخت کرنے والوں کے انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں ہیں ۔ جس طرح سے چاہیں اپنی من چاہی قیمتوں پر فروخت کا سلسلہ شروع ہے مجھے یاد ہے پہلے کبھی مہینے کے بعد قیمت بڑھتی تھی تو لوگ پوچھتے تھے کیا ہو گا کیوں اتنے پرائز بڑھ گئے پھر بات ہفتوں میں پہنچ گئی اور اب ہفتوں سے نکل کر آج کے بھاو تک بات آ گئی ۔۔۔ چینی ہو ، پتی ہو ، آئل ہو ، آٹا ہو ، یا دالیں تمام من چاہئے نرخوں پر فروخت ہو رہے ھیں مجال ہے کسی ادارے کہ کسی دکاندار سے آ کر پوچھے کہ اس ریٹ پر کیوں یہ بیچ رہے ہو دودھ والا دودھ جب ٩٥ روپے کلو ہوا تو کلو کی بجائے دودھ والے نے لیٹر دودھ ١١٠ روپے کی قیمت میں بیچنا شروع کر دیا ، ایک تو وزن میں کم کلو سے لیٹر اور دوسرا دود میں پانی ، پہلے باڑے والے ٹیکے لگا کر پانی ملا کر دودھ دیتے ہیں سپلائی والے ڈرم بڑھانے کے لیے ٢٠ ڈرم کو ٢٥ ڈرم بنا لیتے ہیں اور دکاندار تو واہ واہ ۔۔ وہ ١٠ ڈرم کو ١٨ ڈرم تک لے جاتے ہیں ایسا جادو کہ جو دکاندار مافیا کے ذریعے شہریوں کے لیے وبال جان بنے ہوئے ھیں تو یہ ہیں سہولتیں ؟ ہر فرد ٹیکس دیتا ہے اور ہر فرد ہر روز لُٹتا ہے اس کو لوٹنے والے کون ہیں ؟ ہر فرد ٹیکس دیتا ہے وہ رجسٹرڈ کیوں نہیں ہوتا ، منہ دھونے کا صابن ہو ، پیسٹ ہو ، یا کوئی بھی ضرورت کی چیز ، سب پر قیمت کیساتھ ٹیکس عوام سے وصول کیا جاتا ہے وہ ٹیکس کون کون ادا کرتا ہے کہا یہ جمہوریت میں بیٹھے حکمرانوں کو نظر نہیں آتا ؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ٹیکس جمہوریہ پاکستان تو پہلے سے بنا دیا گیا تھا اب کیوں ایسے اداروں کو پابند نہیں کیا جاتا کہ اپنے منافع سے ٹیکس ادا کریں کیوں وہ غریبوں کی جیبوں سے اپنے ٹیکس کے پیسے نکالتے ھیں؟ میرا سوال ہے جمہوریت میں بیٹھے ہر فرد سے کہ جو لوگ ٢٠ ھزار تنخواہ لے کر ١٠ ھزار کے گھر کا کرایہ بھرتے ہیں پانچ ھزار بجلی اور گیس اور پانی کے بل ادا کرتے ہیں ، تو ان کے پاس صرف ٥ ھزار روپے بچتے ہیں ان پانچ ھزار میں کوئی بھی جمہوریت میں بیٹھا لیڈر یا اپوزیشن میں بیٹھے لوگ اتنی وضاحت فرما دیں کہ پانچ ھزار میں گھر میں کھانا کیسے بنے گا ؟ اور بچوں کو تعلیم کیسے ملے گی ؟ دوسرے اخرجات زندگی کہاں سے آئیں گے ؟ ٹیکس ان کم پر لگتا ہے جن کی انکم اتنی ہو کہ اس کے بنیادی اخراجات پورے ہو کر اس کے پاس کچھ سیونگ ہو رہی ہو مگر جو لوگ خاندان پہلے سے بدحالی کا شکار ہیں وہ ٢٠ ھزار روپے میں ٹیکس کیسے ادا کرنے کے قابل ہونگے، جو ٢٠ فیصد ١٠ سالوں میں جمع نہیں کر پائے وہ اپنے گھروں کے خواب کیسے دیکھیں گے ؟؟؟؟