قوم نے اپنا حق ادا کر دیا اب منتخب ہونیوالوں کی باری ہے
تحریر: فیصل شہزاد چغتائی
تحریر: فیصل شہزاد چغتائی
سرائیکی
پارٹیوں میں سوائے ٹانک کے اس الیکشن میں کسی پارٹی کا حلقے میں وجود قائم نا رکھنے
کا مطلب یہی ہے کہ اب بھی ہم صحیح سمت سنجیدگی سے کام کریں یہ ایک سنہری موقع تھا وسیب
میں ابھرنے والی سیاسی پارٹیوں کے لیے کہ وہ اپنا وجود بنا سکتیں، اس دوران ن لیگ سے
ہجرت کر کے پی ٹی آئی میں شامل ہونیوالے نمائندگان نے بھر پور کامیابی حاصل کی اور
اپنے علاقوں میں ووٹ لیے کوئی نئی سرائیکی پارٹی اپنا وجود قائم نہ رکھ سکی۔ شکر الحمداللہ
اب ایک اچھی لیڈر شپ کے ہاتھ میں پاکستان آ چکا ہے مگر اس وقت بھی پی ٹی آئی میں کالی
بھیڑیں گھس گئی ھیں جن سے عمران خان کو محتاط رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان
کے آئندہ پانچ سالوں میں جو نوجوان نسل کے لیے ترقی دیکھ رہا ہوں وہ قابل تعریف ہے
گوادر سی پیک میں یورپ ، امریکا اور کینڈین کمپنیاں اب پاکستان میں اپنے مینوفیکچرنگ
انڈسٹری شفٹ کریں گیں یا نئے پلانٹس لگائیں گیں کیونکہ جو پراڈکٹ ان ممالک سے ایشیاء
میں سپلائی کی جاتی ہے اس کی ڈیلیوری ایشیاء میں قیمت کو آسمان تک پہنچا دیتی ہیں جس
کی وجہ سے ٹیکنالوجی ، کمیونی کیشن کی ایک بہت بڑی انڈسٹری آئندہ پاکستان کے گوادر
سی پیک پر آنے کی نوید ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں جو بدنامی پاکستان کی ہوئی اس کی بد
ترین مثال نہیں ملتی، ہمسائیہ ممالک کی کرم نوازیوں نے تو بڑھا چڑھا کہ پاکستان کو
بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نا رکھی، ایسا لگتا ہے
کہ وہ تاگ لگائے بیٹھے ھیں اور اگر کوئی پاکستان میں پتھر سے پھسلے تو ان کا میڈیا
کہنا شروع کر دیتا ہے دیکھا انسانیت کے راستوں میں پتھر پھینک کر تشدد کیا جا رہا ہے
۔۔۔ ہمسائیوں کو بتانا چاہتا ہوں جس پرانی سوچوں روائیتوں میں اب تک ان کے ذھن الجھے
ہیں وہ پاکستان کو سمجھ ہی نہیں سکے پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں حق کے لیے قوم
کٹ مرنے کو تیار ہے اور اپنی نڈر فوج اور اداروں پر فخر کرتی ہے ہر لمحہ کسی واقعے
کی صورت میں تمام گلے شکوے باتیں ایک پاسے رکھ کر ایک ہوتی ہے ۔ اور ہم ایک ہیں الحمداللہ!
جو بدنامی کا باعث بنے آج وہ سلاخوں کے پیچھے ھیں ۔۔۔ ہر غلط کام کا رزلٹ اچھا رکھنے
کی توقعات پاکستان میں وجود نہیں رکھتی، عمران خان کی تقریر سنی بہت اچھا لگا، حق بھی
پہلے ہمسائیوں کا بنتا ہے جو ہمسائیے خوش اسلوبی کیساتھ برصغیر کے حالات بہتری کی طرف
لے کر جانے کے حامی ہیں پاکستان کی لیڈر شپ آج بھی انہیں دعوت دیتی ہے یہ ایک اچھی
خبر ہے تمام ان ممالک کے لیے جو خواہاں ھیں کہ پاکستان کیساتھ ہوں وہ تمام گلے شکوے
بھول کر اس دعوت کو قبول کریں اور جو معاملات پیار محبت سے طے پا جائیں وہاں جنگوں
کی ضرورت نہیں ہوتی۔ برصغیر کے عوام کے مستقبل کے لیے اب سوچ بدلنی ہوگی تمام ممالک
اقتصادی راہ ہموار کریں ایک دوسرے ممالک کی شہریت کو اہمیت دی جائے اور حقوق کی پاسداری
رکھی جائے اسلامی ممالک میں پاکستان اہمیت کا حامل ہے اور بھر پور دفاعی صلاحیت رکھنے
کے ساتھ ساتھ ایسی فوج رکھتا ہے جس سے کسی بھی ملک کی مدد کی جا سکتی ہے ایسے نڈر شیر
ہر وقت اپنے ملک کے دفاع کے لیے چاک و چوبند رہتے ھیں جن کا جینا اور مرنا صرف پاکستان
کے لیے ہے ہم پاکستانیوں کو فخر ہے کہ ہم ایک عظیم فوج کے جوانوں کی وجہ سے پاکستان
میں آزادی سے گھومتے پھیرتے اور سکون سے سوتے ہیں اور تمام قومیں چاہے وہ مسلمان ہوں
یا نا ہوں تمام کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ پاکستان ترقی کی راہ پر چل پڑا ہے انشاء
اللہ پوری قوم نے اپنا حق ووٹ دیانت داری سے ادا کیا ہے اور اس کا صلہ بھی ایک بہتر
پاکستان ہوگا۔۔۔
سرائیکی
خطہ پر سالوں سے غیور لوگ اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑ رہے ھیں ان کی ثقافت تہذیب کی
عکاسی پوری دنیا میں پنجابی سے کرائی جا رہی ہے جو کہ غلط ہے اس خطے کے لوگ اپنی شناخت
بچانے کے لیے تگ و دو میں ہیں تاکہ جو ماضی میں اس خطے کا فنڈ بڑے شہر خصوصا لاہور
اور دیگر اپر پنجاب سے منسلک شہروں پر لگتا رہا ہے یا نوازا جاتا رہا ہے اب اس سلسلے
کا ختم ہونا وقت کی ضرورت ہے صوبہ بہاول پور بحالی اور تحریک سرائیکستان کو اگر یک
جا کر کے ایک صوبہ سرائیکستان کے نام سے وجود میں آتا ہے تو اس سے ایک قوم کو اس کی
شناخت ملے گی اور وہاں کی محرومیوں کا ازالہ ہوگا، اس خطے پر آباد صرف سرائیکی قوم
نہیں اس خطے پر اب آباد ہر قوم ہے اور اپنی زندگیاں گزار رہی ہے۔ تعلیم سے محروم بچے
، زچگی کے دوران زندگی کی بازی ھارنے والی عورتیں، وڈیروں جاگیرداروں سرداروں اور
چوہدریوں کی اس خطے پر قانون کو لونڈی بنا کرخطے کی آواز کو دبانے کی کوششیں، اب
ان کا خاتمہ بنتا ہے اب سندھ میں بھی سرائیکی لیڈر آصف علی زرداری ہے اور پنجاب
میں عمران خان اب تو حکومت اگر دیکھی جائے تو سرائیکیوں کی ہے چاہے پارٹیاں مختلف
ہوں مگر بلوچستان عوام پارٹی ، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف یہ
تین پارٹیاں چاہیں تو سالوں میں بنیادی حقوق سے محرم اس خطے کو صوبہ بنا دیا جائے
جو کہ ناگزیر ہے ۔ زراعت میں خود کفیل ہونے کے لیے سرائیکی خطے کو نظر انداز نہیں
کیا جا سکتا جب یہاں کے لوگوں کے پاس بنیادی سہولتیں ہوں گی تب ہی زراعت میں مزید
ترقی آئے گی اور روزگار کے مواقع نکلیں گیں، سرائیکی خطے پر اعلی کوالٹی کی کاٹن
کاشت ہوتی ہے جو پوری دنیا میں اہمیت کی حامل ہے اگر وسیب کیساتھ ساتھ سندھ کو بھی
ھرا بھرا کر دیا جائے تو کتنا بہتر ہوگا، فی الوقت ! سرائیکی خطے کا حق بنتا ہے کہ
اس نے ہر بار ہر پارٹی تحریک کو ویلکم کہا اور کھل کر سپورٹ کی اس خطے نے پھر ثابت
کر دیا کہ وسیب وجود رکھتا ہے اور اہمیت کا حامل ہے۔ اب وسیب کے فرد اپنا حق ادا
کر چکے ھیں اور منتظر ہیں کہ منتخب ہونیوالے کب اپنے وعدے پورے کرتے ھیں۔
میں
فخر کرتا ہوں کہ پڑھے لکھے عمران خان کی لیڈر شپ میں ملک جا رہا ہے اور ایک ایسے
خاندان کے ٹولے سے پاکستانیوں کو نجات ملی ہے جو سالوں سے مسلسل ان کے ہاتھوں بلیک
میل ہو رہا ہے، سڑک پر پیدل چلنے سے لے کر اُڑ کر جانے والے ذرائع میں مختلف
صورتوں سے ایک پاکستانی ٹیکس ادا کرتا ہے۔ صبح سے شام تک جو روز مرہ کی اشیاء
استعمال میں آتی ہیں چاہے وہ کھانے کی ہوں چاہے اوڑھنے کی چاہے وہ سونے کی ہوں
تمام کی تمام پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ انٹرٹینمٹ کو پہلے ختم کیا گیا ، تفریحی مقامات
کو یکے بعد دیگرے ختم کیا گیا اب ایسے تفریحی مقامات کو فری سے کمرشل کر دیا گیا
ہے ! پاکستان فلم انڈسٹری کو زوال کے
دھانے پر لا کر چھوڑ دیا گیا سنیماوں پر دھماکے ایک ایک کر کے تمام پرانے سنیما
ختم کروا دئیے گئے اب کراچی ان سنیماوں کو جدید سہولتوں سے آراستہ کر کے عوام کو
مہنگی انٹرٹینمنٹ فراہم کی جا رہی ہے۔ ایسے پارک ملک میں بنا دیئے گئے ھیں جن میں غریب
کا بچہ 50 روپے سے 500 روپے ٹکٹ دے کر انٹرٹینمنٹ خرید سکتا ہے۔ کھیل کے گراونڈ پر
مارکیٹیں ، پلازے ، شادی ھالز کی اجارہ داری ہے۔ قوم سے کھیل کا جذبہ ختم ہو گیا
ہے نئے کھلاڑی پیدا ہی نہیں ہو رہے، وجہ کھیل کے میدانوں کا نا پید ہو جانا ہے اور
اگر کوئی ایک آدھ ایسی جگہ ہے بھی تو اس پر بھی مختلف طریقوں سے رقم بٹورنے کا
ذریعے رکھا گیا ہے مثال کے طور پر انٹری فیس، پارکنگ چارجز کے نام پر بھتہ کھلے
عام چل رہا ہے، پورے ملک میں پبلک ٹرانسپورٹرز کے بعد پارکنگ مافیا گھر کر چکی ہے
جو یومیہ کروڑوں روپے صرف موٹر سائیکل پارکنگ سے کما رہی ہے اس وقت کراچی ایسے
معروف ترین شہر میں موٹر سائیکل کی پارکنگ 30 روپے تک کر دی گئی ہے یہ پیسے کن کو
جاتا ہے کون لیتا ہے کتنے شراکت دار ہیں ٹیکس ادا کرتے ھیں نہیں کرتے کوئی خبر
نہیں۔۔۔ سپریم کورٹ نے ڈیم بنانے کے لیے قوم سے اپیل کی کہ وہ 10 روپے ملائیں قوم
اپنا حق ادا ر رہی ہے یہ قوم مختلف طریقوں سے لٹ رہی ہے اگر یہ پارکنگ کے نام پر
وصول کی جانے والی جبری بھتے کو کراچی سے لے لیا جائے تو کافی معاونت درکار ہو
سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ کراچی سڑکوں کے اطراف کھڑے ٹھیلے والوں سے بھتہ لینے والے
پولیس اہلکار جو کسی سے ١٠٠ اور کسی سے ٥٠٠ روپے یومیہ وصول کرتے ھیں ان اہلکاروں
سے بھی حساب کتاب بننا چاہئے ہر اچھے کام کے لیے اپیل کی جاتی ہے کہ اپنا حصہ ١٠
یا بیس روپے کا ملائیں مگر وہی قوم پہلے سے مختلف طریقوں سے بھتہ ادا کر رہی ہے جو
یومیہ ٥٠٠ سے ھزاروں میں جاتا ہے۔ جہاں عمران خان کرپشن کے خلاف نکل ہی پڑے ھیں تو
قوم کے ہر فرد نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے ان کا انتخاب کیا ہے اور مسترد کر دیا ہے
تمام پرانے چہروں کو۔۔۔ اب گوادر سی پیک منصوبے کو تکمیل تک پہنچایا جائے تاکہ جلد از جلد روزگار
کے مواقع میسر ہوں۔ جو ہمارے ملک میں انڈسٹری لگا رہا ہے یا خواہاں ہے انڈسٹری
لگانے کا تو اسے گوادر پر انڈسٹری لگانے کے لیے زمین فروخت نا کی جائے بلکہ وہ
زمین پانچ ، دس سالہ کرائے پر دی جائے۔ ھاں البتہ اگر وہ رہنے کے لیے اپنی ذاتی
زمین لیتا ہے اس کو حق ہے کہ وہ زمین خریدے اور اپنی رہائش رکھے مگر انڈسٹریل زون
میں غیر ملکی زرمبادلہ لگانے والوں کو پابند کیا کہ وہ پاکستان سے لیبر لیں، چائنہ
جیسا نا ہو ، فی الحال چائنہ ماچس کی ڈبی بھی اپنے ملک سے لے کر آتا ہے اور خواہاں
ہے کہ اس کی تمام لیبر اپنی ہوگی۔ اگر کوئی تجارت کی غرض سے گوادر سی پیک میں آتا
ہے تو اسے چاہئے کہ وہ پاکستان سے بے روزگار لوگوں کو بہتر میرٹ پر نوکریاں دے تاکہ
غربت کی چکی میں پستے گھروں کو سہارا مل سکے۔
پورا
ملک اس وقت اقتدار کی منتقلی کا منتظر ہے اور خواھاں ہے کہ کب اقتدار مکمل سیف
طریقے سے منتقل ہو اور ترقی کی طرف نکلیں ۔۔۔ جیسا کہ وعدہ کیا گیا غریبوں کو حق
دیا جائے گا تو پہل غریبوں سے کی جائے تاکہ سفید پوشی کی زندگی گزارنے والے ایسے
خاندانوں کو سہارا مل سکے جو کسی کے سامنے اپنی روداد سنا نہیں سکتے اور سسک کر
اپنی زندگی کی تکمیل کر رہے ھیں۔ اس طبقے کے لیے سنجیدگی سے اب کام کرنے کی ضرورت
ہے۔ نئے صوبوں کا قیام نا گزیر ہے کیونکہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک آبادی ایک
جیسی نہیں رہی اب ضروریات بڑھ چکی ہیں آبادی اب اس وجود میں آ چکی ہے کہ ملک میں
ترقی لانے کے لیے صوبوں کا وجود ناگزیر ہے۔ نوجوانوں کا انتخاب کیا جائے جو اہلیت
رکھتے ھیں مگر وسائل نا ہونے کی وجہ سے اچھے دنوں کے انتظار کے منتظر ہیں ایسے
نوجوانوں کو صوبوں کو ترتیب میں لاتے ہوئے برسروزگار کیا جائے۔ جو جتنی اہلیت
رکھتا ہے جو مقامی ہے اسے اہمیت خصوصا اہمیت دی جائے تاکہ کسی کی حق تلفی نا
ہو۔۔۔سرائیکی خطے کے ہر فرد نے اپنے نمائندوں کو مسترد کر دیا اور عمران خان کے
منتخب کردہ ہر فرد کو منتخب کیا صرف اس لیے کہ لیڈر کو دیکھا گیا کہ لیڈ کون کر
رہا ہے اب اس خطے کی عوام امید رکھتی ہے کہ ان کی شناخت کی جنگ جو وہ سالوں سے لڑ
رہے ھیں وہ انہیں دی جائے ان کی تہذیب کو تسلیم کیا جائے ان پر مسلط کئے جانے والے
لفظ جنوبی پنجاب اور پوری دنیا میں انہیں جبری طور پر پنجابی کہلوانے کی روایت کو
ختم کیا جائے ۔ ہر قوم جینے کا حق رکھتی ہے ہر قوم اپنی ماں کی گود میں بولنا
سیکھتی ہے اور اپنی ماں کی زبان سے محبت رکھتی ہے۔ اپنی تہذیب و ثقافت اور زبان سے
محبت رکھنا گناہ نہیں ۔۔۔ اسے تسلیم کیا جائے اور تاریخ رقم کی جائے اور اس ریاست
کو مکمل فلاحی بنایا جاٹے تاکہ آنیوالی نسلوں میں ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ بیدار
ہو اور مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں صرف لکھنے اور بولنے تک نا رہے حقیقی معنوں
میں ہم سب بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کو تسلیم کریں اور ایک دوسرے کا حق اس کو دیں
جس طرح سرائیکی خطے کے عوام ہر قوم ہر رنگ و نسل کی تفریک رکھے بغیر اسے تسلیم
کرتے ھیں اسی طرح سب کا احترام کیا جائے۔ ماضی میں ہونیوالی غلطیوں کو ذھن نشین
رکھا جائے ایسے ٹولے کی سنی ضرور جائے مگر اپنی نظر سے دیکھا جائے اور سب اچھا ہے
کہ رپورٹ کو مسترد کر کے حقیقت کو تسلیم کیا جائے۔ ان الیکشن میں الیکٹرانک اور
پرنٹ میڈیا نے جو قردار ادا کیا وہ قابل تعریف ہے اور امید ہے صحافت اسی طرح اپنی
خدمات انجام دیتی رہے گی اگر کہیں خان صاحب غلط ہوں ان کے حامی انہیں سب بہتر ہے
کی رپورٹ دے رہے ہوں تو اس کی نشاندھی کی جاتی رہے تاکہ ملک جلد از جلدمعاشی
مضبوطی کی طرف آئے۔
آخر
میں اتنا لکھوں گا الیکشن کو ذاتیات پر ہرگز نا لیا جائے ھار جیت مقدر ہوتی ہے اس
الیکشن میں ہارنے والےاپنی غلطیوں سے سیکھیں اور اس کا ازالہ آئندہ انتخابات میں
کریں اور اپنی ذات کو منوائیں۔ اور جو دوست اکثریت سے منتخب ہوئے ھیں وہ ملک کی
بہتری کے لیے کام کریں اور وہ تمام وعدے پورے کریں جو انہوں نے علاقائی، شہری اور
ملکی سطح پر کیے۔